50 ڈگری گرمی میں دیہی عورتوں کے ساتھ

کشور ناہید
26 مئی ، 2022
اسلام آباد میں املتاس کے پھول کھلے تھے اور سیاست میں سب گفت و ناگفت حضرات سیاسی گُل کھلا رہے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ دل جلانے سے بہتر ہے کہ میں کوئی باقاعدہ کام ہوتا ہوا دیکھ لوں۔ سندھ کے دیہات میں ’’سرسو‘‘ اور این آر ایس پی نے کیا کیا؟ میں نے دل سنبھال کے جانے کا پروگرام اس شدید گرمی میں اس لیے بنایا کہ مجھے سچ لکھے اور سچ دیکھے ہوئے مدت ہو گئی تھی۔ اللہ کا نام لیکر سکھر کے لیے روانہ ہوئی۔ 50ڈگری سورج کی دھوپ میرا امتحان لے رہی تھی اور میں تھی کہ شکارپور، لاڑکانہ، میرپور اور مورو کے دیہات میں عورتوں کے تعلیمِ بالغاں، صحت اور کرافٹ کے مراکز میں دھول مٹی پھانکتی، دتل صاحب اور خواتین کارکنوں کو ساتھ لیے، گرمی کو پچھاڑتی، چلتی رہی۔ مورو میں تو حیران رہ گئی جب ایک لاکھ دس ہزار روپے لیکر خود لیبر بن کر ایک مولوی صاحب نے 25ہزار روپے ملاکر دو کمرے اور ایک برآمدہ بنا لیا تھا۔ کاش عمران خان ’’سرسو‘‘ کے کارندوں کے ساتھ مل کر 5لاکھ گھر بنا لیتے۔ دیہات میں خصوصاً جو کام گلی گلی ہوتا نظر آیا، وہ تھا سولر پلیٹیں بنانا اور پھر ان کا استعمال تقریباً ہر گھر، ہر بازار اور جھونپڑی والے تعلیمِ بالغاں کے اسکولوں میں بھی تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’پیسے کہاں سے آئے‘‘؟ بولے قرض لیا دس ہزار، این آر ایس پی۔ اور ’’سرسو‘‘ سے۔ اب واپس کیسے کرو گے؟ بولے سال بھر میں ادا کرکے اور قرض لیکر کوئی اور کام کریں گے، یہی جواب بڑے اطمینان سے دیہات کی خواتین بھی دے رہی تھیں۔ کمال بات تو یہ ہے کہ سندھ بھر میں لڑکیوں کے اسکول بہت کم ہیں مگر لڑکیاں بھی پرائمری اسکول میں پڑھنے کے بعد، مڈل اور میٹرک کبھی کسی اور اسکول میں داخلہ لیکر اور کبھی پرائیوٹ میٹرک پاس کر لیتی ہیں۔ چونکہ اب ہر لڑکی پاس فون کی سہولت موجود ہے، اس نے خود ہی نیٹ پر آرڈر لینے، کشیدہ کاری، رلی بنانے اور طرح طرح کے اچار بناکر مارکیٹ میں فروخت کرنے کا گر سیکھ لیا ہے۔ بہت سی شادی شدہ اور کنواری خواتین نے، پودے خرید کر نرسریز بنائی ہیں۔ کسی نے دکان گھر کے ایک کمرے یا کونے میں بناکر، بچوں کی اسکول کی کتابیں، کاپیاں اور روزمرہ استعمال کی چیزیں فروخت کرنا شروع کی ہیں۔ ایک خاتون نے اپنی ماں کا گھر خواتین مارکیٹ کے لیے وقف کردیا ہے۔ ایک صاحب جو اسکول میں پڑھاتے رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے کمرے کو لائبریری میں تبدیل کردیا ہے، انہوں نے ہی اپنا برآمدہ ان لڑکیوں کے لیے وقف کردیا ہے، جہاں لڑکیاں کھڈیاں لگاکر کام سیکھ رہی ہیں اور ساتھ ہی کپڑے کا آرڈر لینا بھی سیکھ رہی ہیں۔ چونکہ این آر ایس پی اور میرے کھڈیوں کے کام کو آگے بڑھانے میں کوئی بیس برس صرف ہوئے، انجام اچھا نہیں تھا کہ لڑکیاں کام سیکھ کر، جہیز بنانے کے بعد شادی کرکے کسی دوسرے شہر چلی جاتی تھیں، گھر اتنے چھوٹے تھے کہ وہ گھر میں کھڈی لگا نہیں سکتی تھیں، اس لیے کام تو چلتا رہا مگر انجام کچھ اچھا نہیں ہوا، اس کے برعکس ’’سرسو‘‘ نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ جو لڑکی کام میں مہارت حاصل کرکے روزانہ چھ گز کپڑا بنائیگی، اس کو کھڈی انعام میں دے دی جائے گی۔میں موہن جو دڑو کے گائوں سے واپس ریسٹ ہائوس میں کھانا کھانے پہنچی اور پوچھا کہ کھانا کس نے بنایا ہے۔ بتایا کہ اس علاقے کی ایک خاتون ہے جس کو آرڈر دے دیا جاتا ہے اور اس کو رقم دے دی جاتی ہے۔
دیہات میں ہر بڑی بوڑھی عورت، رلی بنانا گھر میں ایسے سیکھتی ہے جیسے گڈے گڑیا کے کپڑے سینا، غریب سے غریب گھر میں بھی کم از کم بیس رلیاں موجود ہوتی ہیں۔ ہر بیٹی کو شادی کے وقت دس رلیاں دی جاتی ہیں۔ اور اب تو نوجوان بچوں نے آٹھویں تک پڑھ کر، گھروں میں بنی رلیاں سڑک کنارے فروخت کرنا شروع کردی ہیں۔ خیرپور جہاں پہلے عورتیں صرف کھجوروں کا کام کرتی تھیں، انہوں نے تیار شدہ رلیوں کو گھر میں رکھا اور سڑک کنارے فروخت کرنے کے لیے ان نوجوانوں کو کام میں لگایا۔ ان کے ساتھ کبھی خاندان کا کوئی بزرگ اور کبھی ماں بھی موجود ہوتی ہے، ان کو دیکھ کر میرا جی چاہا کہ طالبان کو افغانستان سے بلاکر دکھائوں اور کہوں کہ تم تو پڑھی لکھی عورتوں پر پابندی لگارہے ہو، میں نے خود کابل، قندھار، ہرات کے دیہات میں افغانی کشیدہ کرتی خواتین دیکھی ہیں مگر میں کس کس کو دنیا بھر سے سمجھائوں گی۔ کیا میں نیو یارک میں 18سالہ سفید فام سے پوچھون گی کہ تم نے کالوں کو بےموت کیوں گولیوں سے چھلنی کردیا؟ مجھے واپس اپنے دیہات کی جانب آنا ہے۔ جہاں میٹرک کے امتحان میں بیشتر بچے، استاد کی موجودگی میں نقل کرکے میٹرک پاس کرتے ہیں۔ کوئی ٹوکتا ہی نہیں، جیسے خواتین نے بچے پیدا کرکے بھی تعلیم بالغاں کورس پاس کرکے اکائونٹ کھولنا اور اپنا نام لکھنے کے ساتھ قرضے کی رقم کی واپسی کا شیڈول بھی لکھنا سیکھ لیا ہے مگر ان کے مرد، ابھی تک وہی مزدوری کیے جانے پر مصر ہیں، جو ان کے باپ دادا کرتے آئے ہیں۔
ٹنڈو اللہ یار اور ٹنڈو محمد خاں میں بہت ہریالی اور آموں کے اتنے باغات ہیں کہ دیکھ کر قدرت کی عنایت پر رشک آتا ہے۔ نہروں میں پانی آنا شروع ہو گیا ہے۔ یہاں بھی تعلیمِ بالغاں کے مراکز زیادہ اور اسکولز بہت کم ہیں۔ ویسے بھی جہاں اسکول ہیں وہاں ٹیچر نہیں آتے، بچے بھی آنا چھوڑ دیتے ہیں۔ زیادہ تر علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں کے اسکول نہیں۔ پانی کا بھی یہی مسئلہ کہ صاف پانی پہلے بہت کم تھا مگر اب پانی صاف کرکے سبز رنگ کے نلکوں میں آتا ہے اور دوسرا گدلا پانی، پینے کے علاوہ دیگر کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ سندھ میں چونکہ تعلیم بھی اور نصاب بھی سندھی ہی میں ہے۔ خواتین میں یہ شعور آگیا ہے کہ کزن سے شادی میں تھلیسیمیا کاڈر ہوتا ہے، اب چیک تو شادی سے پہلے نہیں کرواتے، البتہ کزن شادیوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس طرح وٹے سٹے کی شادی اور کم عمر بچیوں کی شادی کے واقعات کو دیہات کی خواتین نے خود گروپ میں جاکر رکوایا اور کئی جگہ تو تھانے جاکر پولیس کو ساتھ لے آئیں۔
سندھ کے جن دیہات میں مَیں گئی، ان میں کوئی پندرہ لڑکیوں نے بی۔اے کر لیا ہے۔ کچھ تو اپنے علاقے میں ہی ملازمت کررہی ہیں اور کچھ بزنس پر آمادہ نظر آئیں۔ میں نے تو وہاں کے اسٹاف اور سربراہوں سے مشورہ کرکے ان تمام لڑکیوں اور خواتین کو لوکل باڈیز اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کی ترغیب دی ہے۔ شاید ان کی محنت سے ہی ملک کی تقدیر بدل سکے۔