سیاسی بحران: مثبت پیش رفت

اداریہ
01 جون ، 2022

ملک اِس وقت جس ہیجان انگیز، پریشان کن اور غیریقینی سیاسی صورتحال سے گزر رہا ہے اس کے پس منظر میں ایک ماہ کے طویل لیت و لعل کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آئینی تقاضے کے مطابق گورنر پنجاب کے منصب پر جنوبی پنجاب کے ممتاز سیاسی گھرانے کی شخصیت محمد بلیغ الرحمٰن کی تقرری، ایوان صدر اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کے حوالے سے ایک اہم اور مثبت پیش رفت ہے جس سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پیدا ہونے والا آئینی بحران ختم ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ وفاق کے بعد پنجاب میں حکومت کی تبدیلی تو عدالتی احکامات کے تحت ہونے والے سیاسی عمل کے نتیجے میں آئی تھی لیکن ہارنے والے فریق نے اسے تسلیم نہیں کیا اور اپنا گورنر مقرر کرکے وزیراعلیٰ کی حلف برداری اور نئی کابینہ کی تشکیل میں رکاوٹیں کھڑی کر کے سارے نظام کو مشکوک بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ معاملات عدالتوں میں بھی گئے۔ اس دوران وزیراعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کے محمد بلیغ الرحمٰن کو صوبے کا گورنر تعینات کرنے کی سمری صدر مملکت کو ارسال کی جسے صدر نے مسترد کر دیا اور سمری نظرثانی کے لیے واپس وزیراعظم کو بھیج دی۔ اس پر وزیراعظم نے دوسری سمری صدر کو بھیجی اور نئے گورنر کی تقرری پر اصرار کیا۔ اِس دوران صوبہ مشکل انتظامی اور مالی مسائل سے گزر تا رہا۔ آئین کے تحت ضروری تھا کہ صدر دس روز کے اندر وزیر اعظم کی دوسری سمری منظور کرتے۔ دوسری صورت میں یہ مدت گزرنے کے بعد گورنر کی تقرری منظور سمجھی جاتی اور بلیغ الرحمٰن حلف اٹھا لیتے۔ صدر عارف علوی نے آئین کی پاسداری کی اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے دس روز کی میعاد گزرنے سے پہلے ہی نئے گورنر کی منظوری دے دی اور یوں یہ قضیہ خوش اسلوبی سے نمٹا دیا۔ محمد بلیغ الرحمٰن نے پیر کی رات گورنر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ ان سے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد امیر بھٹی نے حلف لیا۔ اس طرح ایک غیرضروری بحران ٹل گیا اور صوبے میں آئین کی حکمرانی بحال ہو گئی۔ پنجاب کے نئے گورنر بلیغ الرحمن دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیررہ چکے ہیں۔ توقع ہے کہ ان کا طویل تجربہ اور سیاسی بصیرت پنجاب کے معاملات سلجھانے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ان کے حلف اٹھانے کے فوری بعد پہلے مرحلے میں صوبائی کابینہ کے 8وزرا نے بھی حلف اٹھا لیا۔ صدر مملکت نے گورنر کے علاوہ پاکستان الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی خالی نشستوں پر بھی تقرری کی منظوری دے دی جن کی سفارش قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے کی تھی۔ اس طرح کافی عرصہ سے نامکمل الیکشن کمیشن بھی مکمل ہو گیا جس کی اشد ضرورت تھی مگر پچھلی حکومت نے کمیشن کو متنازعہ بنائے رکھنے کیلیے اسے نامکمل ہی رہنے دیا۔ گورنر پنجاب کے تقرراور کابینہ کی جزوی تشکیل کے ساتھ ہی صوبے میں غیر آئینی سیاسی اور انتظامی صورتحال بظاہر ختم ہو گئی ہے تاہم اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے اور کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ معاملات یکسو ہو گئے ہیں کیونکہ ملک میں انارکی پھیلانے کی خواہش مند قوتیں پوری طرح سرگرم اور امن و امان اور سیاسی استحکام کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ایک لانگ مارچ تو ناکام ہو گیا۔ اب دوسرے کی زور و شور سے تیاری ہے اور حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈالنے کیلیے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ملک کا ہوش مند طبقہ میدان عمل میں آئے اور صراط مستقیم سے بھٹکنے والوں کو ملک و قوم کے مفاد کی راہ دکھائے۔