چلتی ٹرین میں خاتون سے زیادتی

اداریہ
01 جون ، 2022

اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان خواتین کےتحفظ کےبیسیوں قوانین ہونے کے باوجود صنفِ نازک کی حفاظت کو ممکن نہیں بنا سکا۔ جس ملک میں 5سالہ بچیوں سے لیکر عمر رسیدہ خواتین تک کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا جائے،وہاں ایسی رپورٹس پر چیں بہ جبیں ہونے کی بجائے اصلاح حوال اورقوانین پر سختی سے عملدرآمدکی ضرورت ہے کہ 2020کی عالمی جینڈر گیپ انڈیکس کی رپورٹ میں پاکستان کو 153 ممالک میں سے 151 واں درجہ دیا گیا۔ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے سروے میں پاکستان کو خواتین کیلئے چھٹا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا۔اب ایک اور شرمناک واقعہ اتوار کی شب رونما ہوا ہے کہ ملتان سے کراچی جانیوالی بہاالدین زکریا ایکسپریس میں چلتی ٹرین میں خاتون کو گینگ ریپ کا نشانہ بنادالا گیا،ٹرین کی سیکورٹی اور انتظامیہ کی ذمہ داری نجی کمپنی کے پاس ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کوپرائیویٹ فرم کے ٹکٹ چیکرز ٹکٹ چیک کرنےکے بہانے اے سی کلاس میں لے گئے اور اس پرتشدد کرنے کے بعد اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نےمکمل طبی معائنے کے بعد خاتون سے زیادتی کی تصدیق کی کہ دو، تین افراد نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور یہ فعل متعدد بار کیا گیا،متاثرہ خاتون کے کپڑوں کو سیمین سیرولوجی اور ڈی این اے پروفائلنگ اور کراس میچنگ کیلئے نمونوں کے ساتھ سیل کردیا گیا ہے۔ کراچی سٹی ریلوے پولیس نے 2 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور تیسرے کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے قبیح افعال کا ذمہ دار کون ہے؟ جہاں انسان ہے وہاں جرم بھی ہے تو انسان کی اسی بے لگامی کیلئے قوانین بنائے گئے ہیں، قصور کی زینب، لاہور کی سنبل اور موٹر وے پر خاتوں کے ساتھ اسکے بچوں کے سامنے زیادتی کے کیس ہنوز حل نہیں ہوئے، آخرقوانین کا بلامتیاز اورسخت ترین نفاذ کب ہو گا ؟