عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے خلا ف ملک بھر کی درجن بھر سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی متنازعہ ہوئی ’’کامیاب‘‘ تحریک عدم اعتماد سے قومی سیاست میں جو ہلچل مچی اور جس طرح ریاستی ڈھانچہ ہل ہل گیا پھر سنگین آئینی بحران پیدا ہوا اس نے 6ہفتے میں ہی سیاسی مستقبل کا نقشہ تو خاصا واضح کر دیا۔ پی ڈی ایم نے تو جو کیا بہت کیا اور مکمل منصوبہ بندی اور شعوری کوشش سے کیا اب اس پر غیر ملکی سازش کا داغ بھی لگ گیا کہ اپوزیشن بنی تحریک انصاف کا یہ الزام ہی نہیں رہا بلکہ تحریک عدم اعتماد کی رات ڈھلے ’’کامیابی‘‘ اور دارالحکومت کے بنے تشویشناک ماحول کا جو ری ایکشن ملک بھر میں بستی بستی، گھر گھر ہوا اور سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوتا دنیا بھر میں دیکھا بھی گیا یہ حیران کن اور قطعی غیر متوقع تھا قبل ازیں پی ڈی ایم کی پارلیمانی مہم جوئی سخت متنازعہ ہو کر بھی کامیاب تو ہوئی۔ اقتدار تو تبدیل ہوگیا لیکن عوامی ردعمل نے یکدم ملک کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا حالانکہ تحریک انصاف کوئی ایسی منظم گھاک سیاسی جماعت تو ہے نہیں کہ اتنا ہمہ گیر اور سچا پکا عوامی ردعمل اپنی تنظیم سے تشکیل دیتی جو ہوا، جتنا ہوا اور جاری ہے وہ اتنا فطری اور جیوئن ہے کہ اس نے راتوں رات ایک اور تازہ دم تحریک انصاف، حکومت گنواتے ہی جنم دی اس کے برعکس حکومت پلٹتے ہی پی ڈی ایم کی اجتماعی قیادت میں خوشی و اطمینان سے زیادہ کہیں کچھ بڑا غلط ہونے کا احساس، فکر اور بوکھلاہٹ نمایاں ہوئی جو اتحادی قیادت کی جلد ی الیکشن میں جانے اور اقتدار کی بچی آئینی مدت پوری کرنے کے سوال پر رائے کی حد تک اتحاد میں تقسیم کا باعث بنی۔ ن لیگ کے ایک سنجیدہ دھڑے میں تو یہ احساس اب بھی باقی ہے لیکن آصف زرداری کے دیئے حوصلے اور معنی خیز بیرونی قبولیت و معاونت کی توقع نے پریشان وزیر اعظم اور ڈگمگاتی حکومت سے بڑے بڑے حساس قومی امور پر انتہا کی متنازعہ تیز تر پارلیمانی اور پنجاب و مرکز میں سوال بنی جو انتظامی اکھاڑ پچھاڑ کرائی ہے وہ اگر بظاہر کوئی وقتی فائدہ دے بھی گئی تو اس کا امکانی سیاسی خسارہ بھی واضح اور بہت زیادہ ہے جبکہ عمران خان کھلے عام احتجاجی سیاست کو قانونی جنگ سے متوازن کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کر چکے ہیں یقیناً یہ آئینی فورم پر آئین و قانون کی تشریح سے بحران کو کم اور ختم کرنے اور کون غلط کون درست کے تعین کی مکمل قابل قبول اور آئینی راہ ہے۔
دوسری جانب پی ڈی ایم نے وزیر داخلہ کو جس کام پر لگا دیا ہے بقول خود وزیر صاحب کہ میں نے جو کیا اور کر رہا ہوں اس میں مجھے پی ڈی ایم قیادت کی اشیر باد حاصل ہے حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پرامن جلسوں کی بلارکاوٹ اور فراخدلانہ اجازت کے ریکارڈ کے باوجود مارچ کی ریلیوں اور قافلوں کےساتھ جو پولیس گردی اور گلوبٹی تشدد ہوا، اس سے ہونے والے سیاسی خسارے کا درست اندازہ ہی ہے کہ داخلی امن کو دائو پر لگانے والے وزیر داخلہ کو وضاحت کرنا پڑی کہ یہ ’’کار سیاہ‘‘ تنہا میرے یا ن لیگی وزیر اعظم کی چھتری تلے ہی نہیں ہوا، ہم سب اتحادیوں کی مشترکہ سوچ و اپروچ کا مظہر ہے۔
ویسے وزیر اعظم شہباز شریف کو مفت مشورہ ہے کہ وہ سارا زور تحریک انصاف کے ہوا کو قابو کرنے اور فتنہ انگیز زبان و بیان سے عمران خان کوبھی فتنہ ثابت کرنے پر ہی نہ لگا دیں اپنا فوکس اپنے دعوئوں کے مطابق معیشت سنبھالنے پر بھی لگائیں آئی ایم ایف اور برادر و دوست ممالک پر انحصار و انتظار کےساتھ ساتھ اپنے طویل اقتدار میں بنائی گئی بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں اور بزنس ٹائیکونز سے ٹیکس وصولی بمطابق (اور نئی قانون سازی ) کرکے دکھائیں وہ بجلی، گیس، اور ٹیکس چوری اور بھاری بھر سبسڈیز اور قرضوں کی شکل میں میڈیا ریکارڈ اور سرکاری رپورٹس کے مطابق آپ کی سیاسی فراخدلی کے بڑے بینی فشری رہے ہیں آج پاکستان پر بہت برا وقت آیا اتنا کہ جتنا انہوں نے اس ملک سے بلاٹیکس کھایا کمایا یہ بلا کا مراعات یافتہ طبقہ سب سیاست دانوں میں آپ ہی کی حکومتوں کا بڑا بینی فشری رہا ہے اور آپ ہی کے راج اقتدار سے انہوں نے اس غریب ملک میں عظمت اور بلندیاں حاصل ہیں۔ ایک منظم مہم کےتحت ملک سے دولت پیدا کرتے وسائل سے ہنگامی بنیاد پر موجود و مطلوب ٹیکس وصولی کو ممکن بنا کر آئی ایم ایف کے متوازی اندر کے دال روٹی اور دوائی دارو، تعلیم، صحت کے سلگتے مسائل میں تو کچھ کمی کریں۔ انسداد کرپشن کے نئے اقدامات پر تو کوئی تجویز کیا دی جائے کہ نیب اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے بال و پر جس طرح کی متنازعہ قانون سازی سے کاٹے گئے ہیں اس میں اس کار بد کی بیخ کنی کی کوئی تجویز دینا خود خودفریبی ہی ہوگی لیکن یہ ایسے چلے گا نہیں۔ واضح رہے عمران حکومت نے ٹیکس گزاروں کا نیٹ بڑھانے میں بڑی کامیابی حاصل کی، آپ اسے ہی جاری رکھیں۔
جبکہ پی ڈی ایم نے اوورسیز پاکستانیوں کو ناقابل قبول اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق ووٹ دینے کی قانون سازی کرلی ہے۔ یار دوست سمندر پار پاکستانیوں کے اس خبر پر تیور کا رنگ بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ووٹ کا حق حاصل نہ ہونے پر سیخ پا ہیں اور غیر معمولی انتخابی مہم گھر بیٹھے چلائیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آنے والی انتخابی مہم میں ووٹرز تک پہنچ کے لیے متذکرہ دونوں بڑے اور سرگرم ہونے والے رائے ساز ذرائع پی ڈی ایم کے لیے درد سر بنیں گے ہی، وہ اداروں کو بھی اپنا آئینی کردار ادا کرنے کا بیانیہ پہلے سے ہی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لیکن وطن عزیز کے امن و استحکام اور اسے جاری بحران و گرداب سے نکالنے کی ذمے داری ممکنہ حد تک قانون و اخلاق اور وطن کے امیج کے فریم میں رہ کر ہی نبھانی ہے۔ ان کے لیے یہ امر اطمینان بخش ہونا چاہیے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ صورتحال کے مطابق چوکس ہیں۔ بیورو کریسی بھی اب پیچھے نہیں رہے ۔ رہی پارلیمان تو اس کے کل پرزے اب آزاد و غیر جانبدار و شفاف الیکشن کے بعد ہی درست ہوں گے جس کے لیے عدلیہ الیکشن کمیشن، بیورو کریسی اور میڈیا نے بہت پروفیشنل اور جاری بحرانی صورت حال کی حساسیت کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہے کہ یہ کسی لیڈر جماعت یا صوبے کا معاملہ نہیں۔ پاکستان کی سلامتی و استحکام اور عوامی فلاح کا معاملہ ہے۔
مزید خبریں
-
ڈونالڈ ٹرمپ آج واپس وائٹ ہاؤس واپس آئے ہیں، اور ان کا امریکہ فرسٹ کا نظریہ ایک بار پھر بین الاقوامی برادری...
-
یہ روایت ہے کہ بانی پی-ٹی-آئی عمران خان کی سیاست صرف ان کی ذات اور’’مشن‘‘ کے گرد گھومتی ہے جس کی تکمیل کے...
-
بیشتر لیڈر بہ عجز و انکسارصدقے جاتے ہیں وطن کی آن پر اور کچھ خوش فہم اپنے آپ کو فوقیت دیتے ہیں پاکستان پر
-
ٹیکنالوجی ……مبشر علی زیدیایک میگزین میں وہ فوٹو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔کافی دیر تک اسے بے یقینی سے تکتا...
-
پاکستان ان ملکوں میں ہے جن کی آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کی آبادی کے...
-
گزشتہ کالم میں پی ٹی آئی کے ایک مخلص حامی سے گفتگو کا ذکر تھا۔ جب اُنہوں نے سُنا کہ ایک امریکی صدر نے قیدی کی...
-
پاکستان کے ٹیکس نظام کے ذریعے آج 77 سال سے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے کیونکہ یہ...
-
وہ بوکھلائے ہوئے لہجے میں پوچھ رہا تھا یہ کیا ہو گیا؟ یہ کیسے ہوگیا؟ میں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ ایک غیر ملکی...