گرینڈ قومی ڈائیلاگ!

اداریہ
07 جون ، 2022

قوموں، قبیلوں اور گروہوں کے درمیان مسائل، تنازعات ،اختلافات اور لڑائی جھگڑے قدیم زمانوں میں بھی سر اٹھاتے رہے ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ صرف طاقت یا ہٹ دھرمی سے معاملات کا کبھی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ برس ہا برس کی جنگ و جدل کے بعد بھی متحارب فریقوں کو کسی نہ کسی سطح پر بالآخر گفت و شنید ، افہام و تفہیم اور صلح جوئی کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑا۔ یہی دانشمندانہ کلیہ آج بھی بین الاقوامی اور قومی دونوں طرح کے اختلافی نقطہ ہائے نظر میں انتہا پسندی کے عنصر پر قابو پاکر قابل عمل تصفیہ کی راہ دکھاتا ہے۔ پاکستان اس وقت مشکل ترین معاشی معاشرتی اور سیاسی مسائل سے دوچار ہے۔ ملک کی معاشی حالت بھاری بیرونی قرضوں ا ور بین الاقوامی کساد بازاری کے نتیجے میں شدید ترین دبائو کا شکار ہے۔ ایسے میں تمام طبقوں ، اداروں، سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کو ذاتی عناد اور انا کو بالائے طاق رکھ کر ان مشکلات پر قابو پانے کیلئے بیک زبان اور ایک دوسرے کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہئے۔ مگر زمینی صورتحال اس کے برخلاف اور انتہائی افسوسناک ہے۔ سیاسی کشیدگی خانہ جنگی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ ایک بڑی پارٹی حکومت وقت کو تسلیم نہیں کرتی جو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے تحت آئینی تقاضوں کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں برسر اقتدار آئی۔ صورتحال ایسی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بجا طور پر ملکی مسائل ، خصوصاًتعلیم، صحت ، صنعت اور زراعت کو سیاست کی نذر نہ کرنے پر زور دیا ہے اور اس حوالے سے متفقہ قومی لائحہ عمل تیار کرنے کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کی اس تجویز کا اعادہ کیا ہے جو انہوں نے بطور لیڈر آف دی اپوزیشن پچھلے سال مئی میں پارلیمنٹ کے فورم پر پیش کی تھی لاہور میں ایک نجی ہسپتال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومیں محنت، صف بندی اور پلاننگ سے بنتی ہیں۔ملک کو آگے چلانا ہے تو ہمیں بڑے پیمانے پر مذاکرات کرنا ہوں گے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر سوچ بچار کرنا ہوگی۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق گرینڈ ڈائیلاگ میں سیاسی پارٹیاں، فوج ، عدلیہ اور انٹیلی جنس ایجنسیاں وغیرہ سب مل بیٹھیں اور ملک کی ترقی ، استحکام اور خوشحالی کیلئے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنی اپنی تجاویز سامنے لائیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس تجویز کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے۔ پارٹی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم باہر سے مسلط کردہ، حکومت کو تسلیم کرتے ہیں نہ اس سے کسی مسئلے پر بات چیت کریں گے۔ البتہ نئے انتخابات کے مسئلے پر بات کیلئے تیار ہیں۔ تجزیہ کاروں نے پی ٹی آئی کے اس تضاد کی نشاندہی کی ہے کہ الیکشن کے معاملے میں تو وہ موجودہ حکومت کو تسلیم کرتی ہے اور اس سے بات چیت کیلئے تیار ہے لیکن اہم ترین قومی مسائل پر نہ اسے تسلیم کرتی ہے نہ بات کر سکتی ہے۔ اصل میں اس کا لیڈرضد اور انا پرستی کا اسیر ہے اور اپنے آ پ کو عقل کل سمجھتا ہے ورنہ اجتماعی دانش کے فورم سے راہ فرار اختیار نہ کرتا۔جامع قومی مذاکرات یا گرینڈ ڈائیلاگ میں مختلف طبقات فکر کی اہم شخصیات شریک ہوں گی۔ ان میں سیاسی و عسکری قائدین کے علاوہ عدلیہ اور وکلا کے نمائندے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ان سب کی سلگتے ہوئے قومی مسائل و مشکلات کے حوالے سے اپنی اپنی سوچ ہے جو بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ سب مل کر جس لائحہ عمل پر اتفاق کریں گے اسی میں قوم کی بہتری ہو گی۔ دنیا اس طرح کے فورموں پر اپنے مسائل کا حل تلاش کرتی رہتی ہے۔ یہ کوئی انوکھی تجویز نہیں ہے۔ اس لئے ملک کے روشن مستقبل کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو جن میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے، گرینڈ ڈائیلاگ میں شریک ہو کر قومی دھارے کا حصہ بننا چاہئے اور ذاتی انا کو بالائے طاق رکھ کر قومی معاشی و معاشرتی لائحہ عمل کی تیاری میں ہاتھ بٹانا چاہئے۔