سندھ کا مقدمہ

مظہر برلاس
07 جون ، 2022
(گزشتہ سے پیوستہ)
ڈھلی تحصیل میں سے پاکستان کی ریلوے لائن گزرتی ہے اسی تعلقے میں پاکستان کا آخری ریلوے اسٹیشن کھوکھرا پار ہے۔ حیدر آباد اور جے پور کے درمیان چلنے والی تھر ایکسپریس یہیں سےگزرتی ہے۔ ان علاقوں سےسابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم جیتتے رہے، ارباب ذکا اللہ کا حلقہ انتخاب بھی یہی ہے۔ سوڈا فیملی بھی یہاں کی باسی ہے۔ تھر کے فوک سنگرز میں سے سب سے بڑا نام مائی بھاگی کا ہے۔ جو 1986ء میں فوت ہوگئی تھیں۔ ان کا گانا ’’کھڑی نیم کے نیچے‘‘ بہت مشہور ہوا۔ مائی بھاگی کا اصل نام بھاگ بھری یعنی قسمت والی، بخت والی تھا۔ اس کی شادی بھی ایک لوک فنکار ہی سے ہوئی تھی۔ بہت سے ایوارڈز حاصل کرنے والی یہ فنکارہ 1919ء میں ڈیپلو کے قریب ایک گائوں میں پیدا ہوئی۔ ایک اور فنکارہ مائی دھائی بھی بہت مشہور ہوئیں۔ انہوں نے عاطف اسلم کے ساتھ کوک اسٹوڈیو میں بھی کام کیا۔ بہت سے ملکوں میں مائی دھائی پرفارم کرچکی ہیں۔ تھر سے تیسری فوک سنگر ہے فوزیہ سومرو۔ یہ ماڈرن گیتوں کے حوالے سے تھرکی مشہور سنگر ہیں۔ ادبی شخصیات میں محمد عثمان ڈیپلائی نے بہت کام کیا۔ سندھی کا مشہور اخبار عبرت ابتدا میں محمد عثمان ڈیپلائی نے نکالا تھا، بعد میں قاضی صاحبان کو فروخت کردیا۔ انہوں نے تھر کے لوگوں کو تعلیم کی طرف بہت راغب کیا۔ محمد عثمان ڈیپلائی نے محمد بن قاسم کی فتح کے سلسلے میں جو غلط بیانیاں تھیں انہیں درست کرکے دہلی کے مشہور منادی میگزین میں شائع کیا۔ 1942ء سے محمد عثمان ڈیپلائی نے حیدر آباد کو اپنا مسکن بنا لیا تھا، ان کی وفات بھی یہیں ہوئی۔ مشہور ڈرامہ نویس عبدالقادر جونیجو تھر کے رہنے والے ہیں، انہوں نے نہ صرف ڈرامے لکھے بلکہ پروڈیوس بھی کئے۔ اسی طرح مشہور صحافی سہیل سانگی بھی تھر کے باسی ہیں۔ سہیل سانگی کا نام ایک بڑے تجزیہ نگار کے طور پر بھی مشہور ہے۔ بیور لعل ایڈوانی فرسٹ کلاس کرکٹر کا تعلق بھی تھر سے تھا۔لعل کمار اور گیان چند نے سیاسی میدان میں نام کمایا۔ اسی طرح رام سنگھ سوڈو نےبھی سیاست میں نام کمایا۔ آفتاب شاہ جیلانی اور علی نواز شاہ بھی سیاسی طور پر مشہور ہوئے۔تھرپارکر میں ہینڈی کرافٹ بہت خوبصورتی سے تیار ہوتے ہیں۔ یہاں سلک کے کارپٹ بھی بنائے جاتے ہیں۔ تھرپارکر میں اٹھارہ سے بیس ہزار ہینڈ لومز ہیں ان لومز پر زنانہ مردانہ تھری کپڑا بنتا ہے۔ ان ملبوسات پر ہاتھ سے کڑھائی بھی ہوتی ہے۔ ہاتھ سے کھلونے بھی بنائے جاتے ہیں، کارپٹ اور دریاں بھی بنائی جاتی ہیں۔بھنبھور ڈویژن میں تین اضلاع شامل ہیں۔ ان اضلاع میں ٹھٹھہ، سجاول اور بدین ہیں۔ سب سے پہلے ٹھٹھہ کا تذکرہ ہو جائے۔ ٹھٹھہ سندھ کے جنوبی اضلاع میں شامل ہے۔ یہیں سے دریائے سندھ گزر کر سمندر میں گرتا ہے۔اس وقت رقبے کے لحاظ سے ٹھٹھہ، تھرپارکر کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا ضلع ہے۔ یہ ضلع چار تحصیلوں یعنی تعلقوں پر مشتمل ہے۔ ان میں گھوڑا باری، میر پور ساکرو، ٹھٹھہ اور کیٹی بندر شامل ہیں۔ ضلع ٹھٹھہ کے شمال اور شمال مغرب میں ضلع جام شورو، شمال مشرق میں حیدر آباد اور ٹنڈو محمد خان کے اضلاع ہیں۔ مشرق میں ضلع بدین اور مغرب میں کراچی ہے۔ جنوب میں بحیرہ عرب ہے اور یہیں کیٹی جیسی اہم بندر گاہ ہے۔ ضلع ٹھٹھہ میں ستانوے فیصد مسلم آبادی ہے جبکہ باقی اقلیتیں ہیں ۔ یہاں 96 فیصد سندھی زبان بولی جاتی ہے، دیگر زبانیں اردو اور پنجابی ہیں۔اگر تاریخ کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ٹھٹھہ مغلیہ دور میں ایک ترقی یافتہ اور متحرک شہر تھا۔ برطانوی عہد میں کراچی کو اہمیت دی گئی۔ یہاں بندرگاہیں بن گئیں یوں ٹھٹھہ پیچھے چلا گیا۔ شاہ جہانی مسجد اور مکلی کا عظیم قبرستان ٹھٹھہ کے شاندار ماضی کی گواہی ہیں۔ ضلع ٹھٹھہ میں کئی جھیلیں ہیں جو مختلف شہروں کی میٹھے پانی کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ان شہروں میں کراچی بھی شامل ہے۔ ان جھیلوں میں سے کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل بہت مشہور ہیں۔ ٹھٹھہ کراچی سے زیادہ دور نہیں۔ ٹھٹھہ کی شہرت کی خاص وجہ یہ ہےکہ جنوبی ایشیا میں اسلام سب سے پہلے یہیں پھیلا تھا۔ اس خطے کی پہلی مسجد بھی یہیں قائم کی گئی تھی۔ بہت سےبزرگ یہاں کی مٹی اوڑھ کر شہر خموشاں کے باسی بنے ہوئے ہیں۔ ان میں شاہ یقیق، عبداللہ شاہ اصحاب، شاہ گورگنج، شاہ مراد شاہ شیرازی، محمد بشام ٹھٹھوی، پیر پاتھو، جمیل شاہ داتار، شیخ حالی، حاجی اللہ ڈنومیندھرو، صوفی شاہ عنایت، شاہ پریوں ستیوں، مفتی فتح علی جتوئی اکبر کی قبروں کے علاوہ سپہ سالاروں اور بادشاہوں کی قبریں بھی مکلی کے عظیم قبرستان میں ہیں۔ مکلی کا یہ قبرستان دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں مدفون عبداللہ شاہ اصحاب دس ہجری میں ٹھٹھہ آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی پاکؐ جس عہد میں اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے اسی عہد میں اسلام ٹھٹھہ پہنچ گیا تھا۔
ٹھٹھہ سندھ کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر چار حکمران خاندانوں کا دارالحکومت رہا۔ سب سے پہلے سما، سمرہ، تغلق اور مغلوں کے عہد میں سندھ کا گورنر یہیں بیٹھتا تھا۔ ٹھٹھہ کے عروج کے دنوں میں یہاں تین ہزار تعلیمی ادارے تھے۔ جہاں ملکی اور غیر ملکی طلبا علم حاصل کرتے تھے۔ ٹھٹھہ نے بڑے بڑے علماء اور سائنسدان پیدا کئے۔ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی مشہور و معروف عالم رہے ہیں۔ امام الاسندھی صحیح بخاری کی عربی میں تشریح کرنے والے بھی ٹھٹھہ ہی کے باسی تھے۔ 1356ءمیں جب سمرہ خاندان کی حکومت زوال پذیر ہوئی تو سما خاندان کو اقتدار مل گیا۔یہ 1356ء سے 1524ء تک سندھ پر بلاشرکت غیرے حکمران رہے۔ (جاری ہے)