دعا زہرہ 50دن بعد سندھ ہائیکورٹ میں پیش،مرضی سے شادی کی، حلفیہ بیان

07 جون ، 2022

کراچی (سٹاف رپورٹر)50دن غائب رہنے والی کراچی کی دعا زہرہ نے سندھ ہائیکورٹ کے سامنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ اسے کسی نے اغواء نہیں کیا بلکہ بغیر کسی دباؤ میں آئے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور والدین سے ملاقات کی بجائے اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ عدالت عالیہ نے دعا زہرہ نے حلفیہ بیان قلمبند کر کے طبی بنیاد پر عمر کا تعین کرنے کا حکم دیتے ہوئے شیلٹر ہوم بھیج دیا۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نے دعا زہرہ اور ظہیر احمد کو سخت سیکیورٹی میں سندھ ہائی کورٹ پہنچایا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کی استدعا پر عدالت نے دعا زہرہ کیس سننے کی اجازت دی تو پولیس نے دعا زہرہ کو جسٹس محمد جنید غفار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو پیش کیا۔ جیسے ہی دعا زہرہ کو کمرہ عدالت میں لایا گیا تو والدہ اور عزیز و اقارب نے ملنے کی کوشش کی۔ جس پر سیکیورٹی اہلکاروں نے منع کر دیا اور کہا کہ سماعت کے بعد ملاقات کرلینا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کیس چلانے کی استدعا کی تو عدالت نے فوری کیس چلانے سے انکار کیا۔ جسٹس محمد جنید غفار نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب۔۔! ہم نے ہنگامی درخواست منظور کی آپ ہمارا بورڈ ڈسٹرب مت کریں۔ جب ہمارے کیسز چل جائیں گے تو کیس سن لیں گے۔ عدالت نے کچھ دیر بعد کیس کی سماعت شروع کی۔ عدالت نے دعا زہرہ کو روسڑم پر طلب کیا۔ جسٹس محمد جنید غفار نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس تو 10 جون کو لگا ہے ہمیں وہ آرڈر دکھائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا کہ دعا کو 10 جون کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی پیش کرنا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا کیس کیا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ظہیر نے دعا زہرہ سے پنجاب میں شادی کی۔ سندھ کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ والدین کے وکیل نے موقف دیا کہ بچی چھوٹی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دعا زہرہ کا بیان لے لیتے ہیں، کیس آج ختم ہوجائے گا۔ عدالت نے دعا زہرہ کو بلایا کہ بیٹا سامنے آؤ۔ دعا زہرہ نے کلمہ پڑھا۔ عدالت نے پوچھا بیٹا آپ کا کیا نام ہے، بچی نے بتایا دعائے زہرہ۔ عدالت نے پوچھا آپ کی کاسٹ کیا ہے۔ دعا زہرہ نے کہا کہ میں شیعہ ہوں، میری عمر 18 سال ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا پیدائشی سرٹیفکیٹ پر کیا عمر ہے جس پر وکیل نے کہا کہ بچی کی عمر 14 سال بنتی ہے۔ عدالت نے بچی سے پوچھا کیا آپ کو اغوا کیا گیا ہے۔ دعا زہرہ نے کہا کہ نہیں مجھے اغوا نہیں کیا گیا، ظہیر نے مجھ سے کوئی زبردستی نہیں کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کس کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ دعا زہرہ نے جواب دیا کہ میں ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو کہاں سے پکڑا ہے۔ دعا زہرہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھے چشتیاں سے لایا گیا ہے۔ دوران سماعت جیسے ہی دعا زہرہ کے والد نے بولا تو عدالت نے چپ کرادیا۔ عدالت نے دوبارہ والد کو بولنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیئے آپ کے وکیل موجود ہیں۔ دعا زہرہ نے حلفیہ پسند کی شادی کی تصدیق کردی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا کہ ہمارے صوبے میں کوئی جرم نہیں ہوا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ پنجاب ہی کا کیس ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پولیس نے 10 سال عمر کیسے لکھ دی۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ عمر کا تعین بھی یہاں نہیں ہوسکتا۔ والدین کے وکیل نے موقف دیا کہ ڈی این اے کرالیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں ایسا کچھ نہیں۔ آپ کا کیس ختم ہوگیا ہے۔ وکیل نے استدعا کی بچی کا میڈیکل کرالیا جائے۔ درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی بچی کو والدین سے ملنے دیا جائے، پولیس ملنے نہیں دے رہی۔ عدالت نے پوچھا بیٹا آپ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہیں۔ دعا زہرہ نے فوری انکار کردیا۔ وکیل نے پھر کہا کہ عدالت حکم دے کہ بچی والدین سے مل لے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب بچی منع کرچکی ہے تو ہم کیسے زبردستی اس سے ملاقات کا کہیں۔ ہم نے اسے ملنے کو کہا اس نے منع کردیا اب ہم کیا کریں۔ عدالت نے دعا زہرہ کو پناہ شیلٹر ہوم بھیجنے اور میڈیکل ٹیسٹ کراکر 8 جون کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔