ہم نوجوانی کے دور سے ہی کاروبار سے وابستہ تھے،مارکیٹ میں کبھی کبھی سننے میں آتا تھا فلاں دکاندار کا کاروبار ختم ہو گیا ہے اور وہ دیوالیہ ہو گیا ہے ۔تمام مارکیٹ کے دکاندار ہوشیار ہو جاتے تھے اور کوئی اس سے لین دین نہیں کرتا تھا کیونکہ اکثریت کا خیال ہوتا تھا کہ وہ خود لوگوں کی دھوکہ سے رقم کھا گیا ہے اور رقم نہ دینے کے بہانے بنا رہا ہے اور کچھ دن بعدوہ اپنی دکان راتوں رات بیچ کر غائب ہو جاتا تھا ۔پھر کسی دور پرے مارکیٹ میں جاکروہی چکر چلاتا، بزرگوں کا کہنا تھا کہ جب مالک خود چوری میں ملوث ہو تو دیوالیہ ہونا لازم ہے ۔اگر ملازم چوری میں ملوث ہو تو نقصان تو ہوسکتا ہے کاروبار ختم نہیں ہوسکتا اس وقت ہم نہیں سمجھتے تھے ۔اب جب سے عمران خان نے 35 سال سے حکمرانوں کی کرپشن بے نقاب کی تو اصل لوٹنے والوں کے چہرے ایک ایک کر کے بے نقاب ہوگئے، پھر وہی ہوا حکمرانوں کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی پاکستان کو لوٹ کا مال سمجھ کر اپنا اپنا حصہ توڑنا شروع کر دیا ۔قریب تھا کہ تبدیلی آتی راتوں رات سب نے سمجھوتا کرکے تبدیلی کو نیست و نابود کر ڈالا اور وہ خواب اب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا اور 25 کروڑ عوام پہلی مرتبہ اصل چہرے دیکھنے کے باوجود تحفظ دینے والوں ہی کے ہاتھوں لٹ گئے اور اسی لائن میں لگ گئے جس سے وہ بیزار ہو چکے تھے ۔مگر اب بقول طارق عزیز کا مشہور جملہ اب غلطی کی گنجائش نشتہ ۔40سال سے ملازمین پاکستان کو لوٹ رہے تھے پاکستانی عوام یہ معمولی جھٹکے کھاکھا کر پھر بھی گزارہ کر لیتے تھے مگر جب ہرے بھرے پاکستان کو رکھوالوںنے لوٹنا شروع کیا تو پھر کیا تھا، 35سال میں وہ اندر سے کھوکھلا ہو نا شروع ہوا یہ کام جمہوریت کی آڑ میں عوام کے نمائندوں نے بلا خوف و خطرکیا۔
ہر سیاسی پارٹی کے سربراہوں نے اپنا اپنا صوبہ چن لیا کچھ حصہ لگا کر بقیہ حصہ کھا گئے ،کچھ نے تو صرف وعدوں اور نوکریوں پر ٹرخادیا اسی پر بس نہیں ہوا تو 18ویں ترمیم کے متفقہ لائے ہوئے قوانین کی آڑ میں وفاق کو بھی نہیں چھوڑا اس کو بھی مفلس کر ڈالا حتیٰ کہ کراچی شہر کی آدھی آبادی کھا گئے گویا مردم شماری کی آڑ میں صرف مردوں کو شمار کیا عورتوں کو گننے کی زحمت ہی نہیں کی۔ گنتی فوجیوں کی نگرانی میں کرائی مگر کاغذوں پر ٹوٹل خود لکھے اور ہوشیاری سے خود الزام سے بچ گئے۔ عمران خان کو باہر کرتے ہی نیب قوانین کا پوسٹ مارٹم کرکے اپنے مطلب کا بنا ڈالا اب نیب افسران کا احتساب کررہے ہیں۔ آج تک ایسا قانون پاس نہیں ہوا جو 40 سال پیچھے سے لاگو ہوجائے یعنی انہوں نے 2022میں مل بیٹھ کر اس قانون کو پاس کروایا اور لاگو 1985سے کروایا یعنی اب تک یہ نیب زدگان تو دودھ سے نہاکر باہر ہوچکے ہیں اور کوئی پکڑ نہیں۔
جب پی ٹی آئی کی حکومت مرکز میں آئی تو اس نے اسلئے چپ سادھ لی اگر دو کروڑ کی آبادی تسلیم کرلی تو دو کروڑ کا بجٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کا کوٹہ بڑھانا پڑے گا۔ صوبائی حکومت اس لئے خاموش رہی کہ فائدہ صرف کراچی والوں کا ہوگا ۔ جہاں 50 سال سے پی پی پی انگلیوں کی حد تک سیٹیں جیت سکی ہے ۔ مہاجروں کے نمائندے 40 سال سے ہر حکومت میں رہنے کے باوجود مہاجروں کے حقوق بیچتے رہے اور جب پی ٹی آئی صرف ان کی سیٹوں کی وجہ سے آئی تب بھی ساڑھے 3سال تک چند بے کار وزارتوں اور اپنے اپنے مفادات کی آڑ میں خاموش رہے ۔حتیٰ کہ جب پی ٹی آئی کاساتھ چھوڑا تو پی ڈی ایم سے بھی کوئی خاطر خواہ مراعات یعنی نوکریاں کوٹہ سسٹم پر زبان تک نہیں کھولی ،اب جعلی ڈومیسائل بنا کر نوکریوں پر قبضہ کرنے کا مبینہ پروگرام ہے اور ایم کیوایم کے یہ ساتوں نمائندے دیکھ رہے ہیںمگر کچھ بول نہیں رہے ہیں۔ جب 24سیٹیں پی ٹی آئی والے مہاجروں کو ملیں وہ بھی مرکزی اور صوبائی سیٹوں پر مزے اڑاتے رہے ،نہ مرکز پر زور ڈالا نہ ہی سندھ میں کوئی کام کروایا۔
صرف 1100ارب کے عمران خان کےکھوکھلے پیکیج کے وعدے پر مہاجروں کو بہلاتے رہے وہ بھول گئے کہ کراچی والوں نے جس طرح ان کی 2018 کے الیکشن میںپذیرائی کی تھی اب اگلے الیکشن میں ان کے نما ئندوں کی کیا درگت بنے گی۔ اگلے الیکشن میں کراچی کے عوام کو سوچنا پڑے گا کہ کس نے کراچی کے حقوق کی آوازبلند کی ،سڑکوں پر آئے ماریں کھائیں ،حقوق غصب نہیں کرائے ،ان کو موقع دیں صرف ناموں پر نہ جائیں کاموں کو دیکھیں کھوکھلے نعروں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ نوجوانوں کو کراچی کے حقوق حاصل کرنے کے لئے تیار کریں خواہ انہیں کسی جماعت سےالائنس کیوں نہ کرنا پڑے یہ موقع ہرگز نہ جانے دیں ۔اس آنے والے الیکشن میں بہت سرپرائز دیکھنے میں آئیں گے۔نئے نئے موڑ آئیں گے ،سارے پہلوان چونکہ اکٹھے ہو چکے ہیں ۔اب صرف پاکستان کی بقا کا سوال ہے معیشت تو آئی ایم ایف کی دھمکیوں میں آچکی ہے پورا پاکستان ان سیاست دانوں اور ان کے حامیوں نے گروی رکھ چھوڑا ۔پیٹرول کا صرف نام ہے ،تمام اشیاء ہی مہنگی ہیں۔ ڈریں اس وقت سے جب یہ نا پید ہو جائیںگی ۔کیونکہ آئی ایم ایف اپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہوگا۔اب پاکستانی عوام کو آئی ایم ایف کو ایک خط لکھنا چاہیے جس کا مضمون درج ذیل ہو۔پچھلے70 سال میں ہماری حکومتوں نے جو قرضے لئے ہیں ، کم و بیش سارے کے سارے ، ہماری اشرافیہ اور سیاستدانوں کے ذاتی اکاؤنٹس میں آپ ہی کے بینکوں میں پڑے ہیں ، لہٰذا آپ سےگزارش ہے کہ ہماری اشرافیہ کے بنک بیلنس اور اثاثے جو آپ ہی کے ممالک میں ہیں ، اپنے قرض کے بدلے ان سب کو اپنی ملکیت میں لے لیں۔ شکریہ۔
مزید خبریں
-
24 نومبر کا احتجاج ختم ہوا! بدمزگی، مایوسی، بے چینی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ سب حیران ہیں کہ کس پر بھروسہ کریں؟...
-
اہل پاکستان چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر ہوں وہ ایک آزردگی کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ اس ملک...
-
امریکہ پہ گفتگو کے دوران کہنے لگے ایک دوست پرسوں ڈونلڈ ٹرمپ کا زمانہ دنیا کو یاد رہے گا برسوں
-
امریکہ کے صدارتی الیکشن کے خارجی اور داخلی اثرات پوری دنیا پر پڑتے ہیں جنوبی ایشیا اور یورپی ممالک کی خارجہ...
-
خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشتگردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں ۔دہشتگردوں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے ۔ اس نیٹ...
-
وزیراعظم لیاقت علی خان کا آبائی شہر ہندوستان میں تھا جہاں انکے خاندان کی اچھی خاصی زمین تھی۔ پاکستان بننے کے...
-
سرِ دست مقابلہ اسلام آباد وسائل اور کے پی کے وسائل کا دکھائی دینے لگا ہے۔ آمنے سامنے اس وقت ایک صوبائی اور...
-
بالآخر عمران خان کی فائنل کال اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ پی ٹی آئی نے ڈی چوک میں دھرنا دئیے بغیر احتجاج...