سیاست سے پہلے ریاست کو بچائیں

عرفان صدیقی
12 جون ، 2022
کچھ اخباری اطلاعات اور ٹی وی خبروں کے مطابق ایک اہم ریاستی ادارے نے حکومت اور اپوزیشن کے اہم رہنمائوںکو بلا کر سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ملک اس وقت سنگین معاشی بحران کا شکار ہے لہٰذا یہ وقت سیاست سے زیادہ ریاست بچانے کا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں تاکہ عالمی مالیاتی ادارے کو یقین دلایا جاسکے کہ حکومت چاہے کوئی بھی ہو جو وعدے عالمی اداروں سے قرض کے حصول کیلئے کیے جائیں گے انھیں کوئی بھی حکومت ہو مکمل کرے گی یا ان کی بھرپور پاسداری کریگی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس ادارے کو اپنی جماعت کی جانب سے آئی ایم ایف کے سامنے پیش ہونے کی یقین دہانی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کیلئے یہ شاید قابل قبول نہ ہو کیونکہ انکی چلتی ہوئی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ہے اسلئے پارٹی قائد اس بات کیلئے تیار نہیں ہو نگے کہ ان کی پارٹی کی جانب سے آئی ایم ایف کو کسی بھی طرح کی یقین دہائی کراکے موجودہ حکومت کیلئے آسانی پیدا کی جائے ، یہ انتہائی اہم خبر ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ریاست بچانے کیلئے تحریک انصاف جو ایک قومی جماعت ہے اس نے وہ تعاون پیش نہیں کیا جو ملک کی معاشی صورتحال اس سے تقاضا کرتی ہے ، حالانکہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کی ہی آئی ایم ایف سے وعدہ خلافیاں ہیں جن کے سبب آج آئی ایم ایف پاکستان کو مزید قرضہ دینے کو تیار نہیں ، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار جنھوں نے پاکستان کو ماضی میں جادوئی طریقے سے نہ صرف معاشی بحران سے نکالا بلکہ ان کے دور میں پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں سو
روپے کے آس پاس رہنے میں کامیاب بھی رہا ، پھر اسحق ڈار کے دور میں ہی پاکستان کی معیشت نے چھ اور سات فیصد کے حساب سے سالانہ ترقی کرکے پاکستان کو بہترین معاشی استحکام بھی فراہم کیا لیکن پھر نواز شریف دشمنی ان کی پاکستان میں جائیداد پر قبضہ کیا گیا، اسے نیلام کرنے اور ان کی سینیٹ رکنیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کے خلاف بھرپور میڈیا پروپیگنڈا شروع کیا گیا لیکن پھر وقت نے ثابت کیا کہ ان پر لگائے گئے تمام الزام سیاسی تھے ،لیکن ان کے خلاف بعض حلقوں کی بداعتمادی کی فضاتاحال قائم ہے حالانکہ ملک کی معاشی بہتری کے لیے اگر شوکت ترین اور ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے معاشی ماہرین سے رائے لی جاسکتی ہے تو اسحق ڈار کے وہ گناہ، جو انھوں نے کیے ہی نہیں ، کیوں معاف نہیں کیے جا سکتے،اس وقت دنیا بھر سے بھی یہی آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے اسحق ڈار کو موقع دیا جائے ،حال ہی میں ن لیگ جاپان کے صدر ملک نور اعوان نے بھی ایک خط وزیر اعظم شہباز شریف کو تحریر کیا ہے جس میںان سے اسحق ڈار کو پاکستان بلوانے کی درخواست کی گئی ہے ، بہرحال ملک میں بجٹ آچکا ہے ماہرین کے مطابق موجودہ اتحادی حکومت کا یہ ایک بہترین عوام دوست بجٹ ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اس بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کسی سہولت کا اعلان نہیں کیا گیا ماضی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اوورسیز پاکستانیوں سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو اپنے ذاتی استعمال کیلئے ایک فون بلا ڈیوٹی لانے کی اجازت اس بجٹ میں دینے جارہے ہیں وہ اجازت بھی نظر نہیں آئی جبکہ سابقہ حکومتوں کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ٹرانسفر آف ریزیڈنس اور گفٹ اسکیم کے تحت ایک گاڑی لانے کی جو اجازت تھی اس پر موجودہ حکومت نے پابندی عائد کردی ہے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانیوالی ان گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندی کا بھی فوری خاتمہ کرے گی۔