بجٹ پر آئی ایم ایف ناخوش، 15 روز تک اس میں تبدیلیاں کریں گے، سخت فیصلوں کے سوا آپشن نہیں، 25 لاکھ دکاندار ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، وزیر خزانہ

12 جون ، 2022

اسلام آباد (خبرایجنسیاں) وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ پر IMFخوش نہیں،15روز تک اس میں تبدیلیاں کریں گے، سخت فیصلوں کےسوا آپشن نہیں، 25لاکھ دکاندار ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، انتظامی امور ٹھیک کرنا ضروری ورنہ ملک چلانا مشکل، پٹرول مہنگا کرکے پیسے گھر نہیں لے جارہے ، لوڈشیڈنگ زیرو نہیں کرسکتے،تمام سرکاری کمپنیوں کی نجکاری ہوگی، یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا، گھی ، چینی سارا سال رعایتی نرخوں پر دستیاب ہونگے، پہلا ہدف پاکستان کو سری لنکا بننے سے روکنا ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ 2017کے پے اسکیل پر ہو گا،بجٹ میں صاحب ثروت افراد پر ٹیکسوں کا کچھ بوجھ ڈالا، کم آمدنی والے افراد کو ریلیف دیا، آئندہ مالی سال میں تاریخ رقم کریں گے، ایکسپورٹس کو 35ارب ڈالرز تک لے کر جائیں۔ہفتہ کووفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب، وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، چیئرمین ایف بی آر اور سیکریٹری خزانہ کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاکہ پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں ہے، حکومت کو مزید مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے، ملک کو انتظا می طور پر ٹھیک کرنا ہو گا وگرنہ ملک کی معیشت نہیں چلے گی، بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تناظر میں مشکل حالات میں نئے مالی سال کے لئے متوازن بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف دینے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، پہلا ہدف مالیاتی استحکام اورپاکستان کو سری لنکا بننےسے روکنا ہے جبکہ دوسرا غریب عوام کو ریلیف دینا ہے، پاکستان باوقار ملک ہے اور ہمیں اپنی معیشت کو سنبھالنا ہو گا، ایسی سیاست کا کوئی فائدہ نہیں جس کا ملک کو نقصان ہو، ہم ملکی مفاد میں مشکل فیصلے کر رہے ہیں اور کریں گے، 25 لاکھ کے قریب دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے فکسڈ ٹیکس کی شرح مقرر کی گئی ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز پر سارا سال آٹا، گھی اور چینی رعایتی نرخوں پر دستیاب ہو گی، زرعی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، بجٹ اقدامات کے ذریعے پاکستان کو پائیدار نمو کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان اس وقت مشکل گھڑی میں کھڑا ہے ، اتنا گھمبیر اور مشکل وقت کبھی نہیں دیکھا، بجلی اور گیس کے شعبہ جات میں 2400 اور 1500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کا سامنا ہے، بجلی کی مد میں 1100ارب روپےسے زائد کی سبسڈی دی گئی ہے، ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہوگا اور بد انتظامی کا خاتمہ کر کے بجلی او رگیس کے شعبے کے نقصانات کو کم سے کم کرنا پڑے گا، اگر ان مسائل کو حل نہ کیا تو معیشت اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی، وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں سال گیس پر 400ارب روپے سبسڈی دی گئی ہے، صرف ایس این جی پی ایل کا 200 ارب روپے کا نقصان ہوا ، سابق حکومت نے بجلی اور گیس کے شعبے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی ، ایل این جی وقت پر نہ خریدنے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہوا،مسائل کے باوجود گیس کی کمی کی وجہ سے کسی فیکٹری کو بند نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں صاحب ثروت افراد پر ٹیکسوں کا کچھ بوجھ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے برعکس عام پاکستانیوں اور کم آمدنی والے افراد کو محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں،ہمیں جاری مالی سال میں 3950 ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ 2018ء میں ہم حکومت چھوڑ رہے تھے تو اس سال بیرون قرضے کی مد میں1499 ارب روپے کی ادائیگی کی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت دنیا میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے جس کے اثرات ملک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، اسی تناظر میں کوشش کی گئی ہے کہ امیروں پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے، اس وقت بین الاقوامی منڈی میں پام آئل کی قیمت 1700 ڈالر فی ٹن کے لگ بھگ ہے، وزیراعظم نے کل انڈونیشیا کے صدر سے بات کی ہے، وزیر صنعت وپیداوار انڈونیشیا کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ خوردنی تیل کی رسد کو ہموار رکھا جائے،حکومت تیل دار بیجوں کی ملکی پیداوار میں اضافے کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور توقع ہے کہ ہم ایک ارب ڈالر تک کے آئل سیڈز خود پیدا کریں گے، بجٹ پر بحث کے دوران اراکین کی رائے سے بعض اقدامات میں معمولی رد وبدل ہو سکتا ہے اور جو کمی ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر خزانہ نے ایک سوال پر کہا کہ نئے ٹیکس اقدامات کا حجم 440 ارب روپے ہے، افرا ط زر کے حوالے سے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، جو بینک اور مالیاتی ادارے کسانوں ، چھوٹے تاجروں،کاروباریورں ، خواتین اور نوجوانوں کو قرضے دیں گے تو ان بینکوں پر ٹیکسوں کی شرح کم ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا پورا ارادہ ہے کہ ہم تمام بڑی کمپنیوں کو نجکاری کی طرف لے کر جارہے ہیں جن میں بجلی کی تقسم کار کمپنیاں،سوئی گیس کی دو بڑی تقسیم کار کمپنیاں، پی آئی اے ، اسٹیل ملز اور دیگر شامل ہیں۔ ہم کچھ کمپنیوں کے شیئرز براہ راست مارکیٹ میں بیچیں گے اور ایک دو بڑی کمپنیوں کو پرائیویٹائز کریں گے لیکن ابھی میں اس حوالہ سے بات نہیں کرنا چاہتا کیوںکہ بڑا جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ای او بی آئی کے مسائل حل کئے جائیں گے، سابق ضم شدہ اضلاع پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ، گزشتہ حکومت نے 2018ء میں سابقہ فاٹا پر ٹیکس لگایا تھا لیکن شوکت ترین نے 2021ء میں اسے ختم کر دیا تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کی یہ ترجیح نہیں ہے کہ وہ سابق حکومت کے خلاف مقدمات قائم کریں، انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے بجلی کے تین پیداواری پلانٹس پر کوئی پیش رفت نہیں کی اور نہ ہی انہیں کوئی پیسے دیئے گئے اگر یہ پلانٹس چلتے تو آج یہ لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں حکومت نے زراعت اور زرعی پیداوار کو ترقی دینے پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے، اس کے علاوہ برآمدات کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ بجٹ میں ملک بھر میں تعمیر وترقی کے منصوبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس سے روزگار کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ 2017کے پے اسکیل پر ہو گااور اس کے بعدایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم ہوں گے، اگر جون کے مہینے میں ہمارے پاس ہر قسم کا ایندھن موجود بھی ہوتا تو پھر بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی کیونکہ ہمارے پاس استعدادکار نامکمل تھی،انہوں نےکہاکہ آئندہ مالی سال میں ہم تاریخ رقم کریں گے اور ایکسپورٹس کو 35ارب ڈالرز تک لے کر جائیں۔ عمران خان خود بھی نااہل تھے اور ان کی ٹیم بھی نااہل تھی اور خروبر د کے اندر بھی بہت لوگ ملوث تھے۔ میاں محمد نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم رہے اور وہ نو یا 10سال وزیر اعظم رہے ، تینوں ادوار میں نواز شریف نے جتنا قرضہ لیا، عمران خان نے اس سے دوگنا سے بھی تھوڑا سازیادہ قرضہ پونے چار سال میں لیا ہے کہ مہنگائی کم کرنا بھی ہمارا ٹارگٹ ہے لیکن ہمارا پہلا ٹارگٹ ملک کو ایسی نہج سے ہٹانا ہے جہاں پر عمران خان چھوڑ کر گیا ہے، پہلا ٹارگٹ ہمارایہ ہے کہ ہم سری لنکا کی صورتحال تک نہ چلے جائیں، اور پہلا ٹاگٹ اپنے ملک کے فنانس کو بچانا ہے۔