برطانیہ کی مساجد اور قبضے کی لڑائیاں

وجاہت علی خان
12 جون ، 2022

برطانیہ میں ’اسلام‘ عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے، ملک بھر میں اس وقت تین ملین کے قریب مسلمان آباد ہیں ان میں سے بڑی مسلمان کمیونٹی پاکستانیوں اور کشمیریوں کی ہے جن کی تعداد 1.7 ملین سے زیادہ ہے ، چنانچہ 30 لاکھ مسلمانوں کےلئے 1800 کے قریب مختلف مسالک کی مساجد قائم ہیں ، برطانوی قانون کے مطابق تمام مساجد رجسٹرڈ خیراتی اداروں میں شمار اور یہ سب چیریٹی کمیشن میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں ، یوں تو مسجدوں کا public concept اللہ کا گھر ہے اور ان کی تعمیر کا پہلا مقصد عبادات اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن افسوسناک حقائق یوں ہیں کہ برصغیر کی طرح برطانیہ کی مساجد بھی پوری طرح نسلی و مسلکی دھڑوں میں تقسیم ہیں ،یہ مسجدیں دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور دیگر مکاتب فکر کی نمائندہ بن کر رہ گئی ہیں اور ان مساجد کے منتظمین گروہی یا فرقہ بندی کی ترویج و تشریح کو ہی اپنا فرض اولین سمجھ کر سارا نظام چلاتے ہیں بلکہ حسرت و یاس کی نشانیاں یہ ہیں کہ ایک اللہ، ایک نبی اور ایک قرآن پر یقین رکھنے کی بنیاد پر بنائی گئی مسجدیں پاکستانی، ہندوستانی، بنگالی، عربی، ترکی مساجد اور اس سے بھی شرمناک یہ کہ اللہ کے اس گھر پر مختلف برادریوں مثلاً جٹ،ملک،آرائیں اور دیگر ذاتوں کے حاملین کی اجارہ داری ہے۔ اب ایسے میں اُمت مسلمہ جیسے الفاظ تو بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں، مساجد کمیٹیاں اپنی تمام تر توانائیاں دینی اخوت ،وحدت المسلمین اور اسلام کی افادیت کے پیغام کے پھیلاؤ پر نہیں بلکہ اپنے اپنے ’’شملے کی اونچائی” پر صر ف کر رہی ہیں ، چنانچہ اس کثیر الثقافتی معاشرے میں محبت و بھائی چارے کا جو پیغام ان مساجد سے پھیلایا جا سکتا تھا برطانیہ کی مسلمان کمیونٹی اس سے کوسوں دور ہوتی جا رہی ہے ، یقینا ًاوپر ذکر کیا گیا ماحول برطانیہ کی تمام تر مساجد میں نہیں ہے لیکن 95فیصدمساجد اسی روّیے اور جمود کا شکار ہیں یہ روّیہ دیگر مسلمانوں میں تو خال خال لیکن برصغیر سے برطانیہ آ کر آباد ہونے والے مسلمانوں پر کلیتاً ثابت ہوتاہے، ہمارے دینی رہنماؤں نے مذہبی تنگ نظری کی وجہ سے ’’ دریا کو نالوں ‘‘ میں تقسیم کر لیا ہے ایسا نقطہ نظر رکھنے والے اصحاب کی مساجد میں نماز ادا کرنے والے کشادگئ ذہن اور سکون قلب کی بجائے گھٹن محسوس کر تے ہیں ، برطانیہ میں مقیم مسلمان جانتے ہیں کہ ماضی میں برمنگھم ، لوٹن اور دیگر شہروں میںجو جھگڑے ہوئے اس سے برطانوی مسلمانوں کے سر شرم سے جھُک گئے تھے ۔ مذہبی شرپسندی نے برطانیہ میں خصوصی طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو خاصا رسوا کیا ہے ، یوں تو آجکل اس قسم کے گروہی جھگڑے کم ہیں لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کے فرقے کی مساجد پر قبضے کے واقعات عام ہیں یعنی ایک مکتب فکر کی مسجد پر دوسرے فرقہ کے لوگوں کا قبضہ، لڑائی جھگڑے، پولیس کیس اور پھر جگ ہنسائی کے واقعات، برطانیہ کی مسلمان خصوصاً پاکستانی وکشمیری کمیونٹی سے متعلق مجموعی طور پر ایک انتہا پسندانہ اور منفی رویہّ دوسری کمیونٹیز میں پنپ رہا ہے ۔یہی وہ رویہ ّ اور اطوار ہیں جو ہمیں ان کمیونٹیز سے علیحدہ سمجھے جانے کی صریح وجہ بن رہے ہیں ۔ 9/11 اور 7/7 کے واقعات کے بعد مسجدوں میں اس قسم کے داخلی تنازعات اب مسلمانوں کیلئے خارجی سطح پر بھی شکوک کا باعث بن رہےہیں ۔ دیگر کمیونٹیز میں مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز رویے ’’ اسلاموفوبیا ‘‘ میں تبدیل ہو گئے ، برطانوی میڈیا کے ایک بڑے حصے نے “اسلام” کی تصویر تشدد پسند مذہب اور مسلمانوں کی تصویر دہشت گرد قوم کی حیثیت سے پوٹریٹ کی ہے ، اس معاشرے میں مسلمانوں جیسی شباہت رکھنے والوں پر بھی حملے ہوئے مساجد پر بھی حملے ہوئے لیکن بحالت مجموعی ہمارے دینی رہنماؤ ں کی اکثریت اور مساجد کمیٹیوں کے زعما نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ مساجد پر قبضے کی لڑائیوں کے خاتمہ اور مسلکی جھگڑوں کے سدِباب کیلئے کوئی ’’سبیل‘‘ اگر کارگر نہیں ہوتی تو کیا یہ بہتر نہیں کہ برطانوی حکومت ملک کی تمام مساجد کیلئے ایک قانون بنا دے کہ مسجد کوئی بھی مکتب فکر بنائے گا وہ ہمیشہ اسی فرقے کے زیر تسلط رہے گی کوئی دوسرا فرقہ اس پر قبضہ نہیں کر سکے گا ۔ قوی اُمید کی جا سکتی ہے کہ اگر حکومت اس قسم کا کوئی قانون نافذ کر دے تویقیناً مساجد پر کسی دوسرے فرقے کے قبضہ کا معاملہ تو حل ہو جائیگا لیکن ایک ہی فرقے کے افراد کی آپسی رسہ کشی اور مساجد کمیٹیوں کی تُو تکار پھر بھی ایک مسئلہ رہے گا جس کا مکمل قلع قمع اگر ہو سکتا ہے تو یہ اسی صورت ممکن ہے کہ مساجد کی انتظامیہ مسجد کو عبادت کی جگہ اور امن و آشتی کا گہوارہ ہی رہنے دےجنگ و جدل کا میدان نہ بنائے ورنہ ان کو یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ ابھی تو برطانوی حکومت مساجد کی تعمیر کی اجازت کے معاملہ میں متعصب نہیں ہے کسی بھی دوسری عمارت کی طرح مسجد کی تعمیر کیلئے بھی زمین ‘نقشہ، طرز تعمیر اور دیگر ضابطے پورے کرنے پر مسجد بنانے کی اجازت دے دی جاتی ہے حتیٰ کہ کسی چرچ کو خرید کر بھی مسجد بنائی جا سکتی ہے لیکن اگر مسجد بنانے اور اسے چلانے والوں کے روّیے متشدد رہے اور حکومت کو لگا کہ اس قسم کے رویوں اور جھگڑوں سے معاشرہ پُر تشدد ہو رہا یا ہو سکتا ہے تو حکومت کوئی انتہائی قدم بھی اس ضمن میں اٹھا سکتی ہے اور ہم سب بہتر جانتے ہیں کہ بہت سی جگہوں پر مقامی عیسائی باشندوں کو نئی مساجد کی تعمیر پر اعتراض بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح برطانیہ کا عیسائی تہذیبی ماحول بدل یا متاثر ہو رہا ہے خصوصاً برطانیہ اور امریکہ میں گزشتہ بیس سال کے دوران دہشت گردی کے دو بڑے واقعات کے بعد مسلمانوں کے خلاف معاندانہ جذبات ’’ اسلاموفوبیا‘‘ کی بڑی وجہ بنے ہیں، اب ہم اس بات کی دُہائی نہیں دے سکتے کہ مسلمانوں میں تقسیم ایک پلاننگ کے تحت ہندوستان پر برطانوی راج میں ہوئی اور لارنس آف عریبیہ بھی اس کا ایک کلیدی کردار تھا۔ اسی فوبیا کے تناظر میں ہم سب جانتے ہیں کہ مارچ 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملے ہوئے تو برطانیہ میں بھی مسجدوں و مدرسوں پر حملوں کی بڑی لہر آئی تھی اور پہلے کی نسبت ایسے واقعات میں چھ سو فیصد اضافہ ہوا۔ اسلاموفوبیا کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی چھ سال پہلے ہنگری کے وزیر اعظم تک نے کہہ دیا تھا کہ “ یورپ آنے والے بڑی تعداد میں مسلمانوں سے براعظم یورپ کی عیسائی بنیادوں کو خطرہ ہے “ اب لندن ہو یا دوسرے شہر ہمیں یہ حقیقت ضرور ذہن میں رکھنی ہے کہ برطانیہ جیسے روایتی معاشرے میں چرچ تہذیبی مرکزیت کی علامت ہے یہاں جب چرچ کی ویرانی اور مسجدوں کی آباد کاری نظر آتی ہے تو مقامی باشندوں میں خوف و حسد اور عناد کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے لیکن اس قسم کے ماحول میں حکومت کو یہ قانون ضرور بنانا چاہئے کہ جو بھی فقہ مسجد بنائے یہ ہمیشہ اسی کے زیر انتظام رہے لیکن اگر ہمارے علما و مشائخ بشمول مسجد کمیٹیاں آپسی و فقہی جھگڑوں میں الجھے رہے تو مقامی آبادی کے دباؤ اور فرقہ واریت کے خطرے کے پیش نظر حکومت کو مساجد کے ضمن میں کوئی سخت قانون بنانا پڑے گا جو شاید مساجد کو کاروبار کی طرح چلانے والوں کیلئے قابل قبول نہ ہو !!