تین غیر معمولی واقعات

عمار مسعود
12 جون ، 2022
ملکی حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ معمولی اور غیر معمولی کے درمیان فرق ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ بسا اوقات کوئی بہت معمولی خبر سامنے آتی مگر اس کے اثرات بہت غیر معمولی ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ہوا کہ کسی خبر کو بہت غیر معمولی بنا کر پیش کیا گیالیکن اس کے پیچھے کوئی بہت معمولی سی بات تھی تاہم گزشتہ ہفتے میں تین واقعات ایسے ہوئے جن کو ہر حال میں غیر معمولی کہا جا سکتا ہے۔
شیخ رشید کا یہ بیان کہ عمران خان کو چار مہینے سے پتہ تھا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے، ایک بہت غیر معمولی بات ہے۔ اس اعتراف سے بیرونی سازش کی قلعی کھل گئی۔ اگر یہ بات موجودہ حکومت کی جانب سے ہوتی تو اس پر کسی نے یقین نہیں کرنا تھا ۔ مگر شیخ صاحب جو عمران خان کے چار برس تک یار غار بنے رہے۔ اپنی پسند کی وزارتوں پر براجمان رہے۔ عمران خان کے ایما پر جلائو گھیرائو کی تلقین کرتے رہے ۔ ہر سہولت کا لطف اٹھاتے رہے۔ انکی جانب سے یہ بیان بہت حیرت انگیز تھا۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ اس بیان کے بعد اب ان لوگوں پر غصہ نہیں بلکہ ترس آتا ہے جنہوں نے بیرونی سازش والے عمرانی بیانیے پر یقین کیا۔ جنہوں نے اس بنا پر افواج پاکستان کے خلاف ایک قبیح مہم چلائی ۔ جنہوں نے جلسوں میں شرکت کی اور جلوس نکالے۔ جنہوں نے جلسوں اور احتجاجوں میں اپنے بچے مروائے اب انکے پاس کہنے کو کیا ہے۔ اب وہ کس امریکہ کےخلاف احتجاج کریں گے ، اب وہ کیسے یورپین یونین کے خلاف جلوس نکالیں گے۔ عمران خان نے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ پہلی دفعہ ایسا نہیں کیا ۔ ان بیچاروں کے ساتھ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے۔ کبھی انکو پینتیس پنکچر کی گولی دی گئی ، کبھی وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کی افیون فراہم کی گئی ، کبھی انکو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر خود کشی کی نوید سنائی گئی۔ ہر دفعہ عمران خان نے اپنے جانثاروں کے سر شرم سے جھکا دیئے۔ اب لوگ رفتہ رفتہ خان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں لیکن پھر بھی ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان۔ کیونکہ اسے میڈیا سے کھیلنا آتا ہے۔ چند دنوں تک یہی لوگ ایک نئے جھوٹ کے ساتھ سامنے آئیں گے لوگوں کو بے وقوف بنائیں گے اور تھوڑے دن تک اس جھوٹ سے مکر جائیں گے۔ یہی ان کا طرز سیاست ہے۔
اس ہفتے کا دوسرا بڑا واقعہ کالم نگار اور اینکر سلیم صافی کا طیبہ فاروق صاحبہ کا انٹرویو ہے۔ طیبہ گل نامی ان خاتون کا نام چیئرمین نیب کے اسکینڈل کے حوالے سے بہت معروف ہوا۔ یہ ان کا پہلا باقاعدہ انٹرویو تھا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ سلیم صافی نے اس دشوار موضوع پر بات کرتے ہوئے اخلاقیات کا مکمل خیال رکھا۔ ہر سوال میں ایک خاتون کا احترام ملحوظ خاطر رکھا۔ جو انکشافات اس انٹرویو میں ہوئے وہ ہوش ربا ہیں۔ اس انٹرویو سے پہلی دفعہ ہمیں یہ پتا چلا کہ کس طرح ان خاتون نے وزیر اعظم کے پورٹل پر شکایت درج کروائی۔ کس طرح وزیر اعظم کے دست راست اعظم خان نے ان سے رابطہ کیا۔ انصاف دلانے کا جھانسہ دلا کر ان سے وڈیوز وصول کی گئیں۔ ان کی اجازت کے بغیر وزیر اعظم کے دوست کے ایک چینل پر یہ بریکنگ نیوز چلوائی گئی اور ساتھ ہی تردید بھی چلوا دی گئی۔ کس طرح اس خاتون کو اور انکے شوہر کو حراست میں رکھا گیا۔ ہر دفعہ وزیر اعظم کے مشیروں کی جانب سے مزید وڈیوز کا مطالبہ کیا گیا۔ پھر جب چیئرمین بلیک میل ہو گئے تو ہر وہ شخص جس نے چیئرمین نیب کی اخلاق باختگی پر سوال اٹھایا اسکو جیل یاترا کروا دی گئی۔ صرف اس وڈیو کی بنیاد پر تحریک انصاف کے کتنے کیسوں پر پردہ ڈال دیا گیا۔ کیسی کیسی کرپشن کو چھپایا گیا۔ کس طرح ایک بلیک میل ہو جانے والے شخص کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا گیا۔ اس کی ذاتی غلطی کو پہلے دنیا بھر میں تماشا بنایا گیا پھر اسکی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کتنے اہم سیاسی فیصلے کئے گئے۔ کتنی سیاسی شخصیات کو بلاوجہ جیل میں ڈالا گیا۔ کتنے جرائم کو چھپایا گیا۔ کتنوں سے سیاسی انتقام لیا گیا۔ اس انٹرویو کو دیکھ کر اس مجرمانہ ذہنیت کی سمجھ آتی جو تحریک انصاف میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ جس کے نتیجے میں اس ملک کا یہ حال ہوا اور جس کی وجہ سے ایک طبقے کو مجرم اور ایک طبقے کو مومن بنا کر پیش کیاگیا ۔ اس انٹرویو کو دیکھیں تو اس ملک کی سیاست کے کئی باب کھل جائیں گے کئی راز فاش ہو جائیں گے۔
تیسرا اہم واقعہ فوج کے ریٹائرڈ افسران کی انجمن وِٹرن آف پاکستان کی جانب سے کی جانے والی ایک پریس کانفرنس ہے۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ریٹائرڈ افسران کی جانب سے اس طرح کی پریس کانفرنس کی گئی ہو۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ انکے بیانیے اور پی ٹی آئی کے بیانیے میں ذرا فرق نہیں تھا۔ دونوں رانا ثنا اللہ کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دونوں عالمی سازش کا ڈھول بجا رہے تھے۔ دونوں نے فوری الیکشن کو اپنا نصب العین بنا کر پیش کیا۔کچھ نے فوج کی قیادت کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ ان میں بہت سے اپنے ہی ادارے پر تنقید کرتے پائے گئے ۔ اس ادارے پر جس کی وجہ سے انہیں عزت ، وقار اور عمر بھر کی سہولتیں ملیں۔ پریس کانفرنس کرنے والے لوگ وہ تھے جو بڑے بڑے نام تھے۔ جو اس ملک کے طاقتور ترین لوگ رہ چکے ہیں ۔ جنکے ناموں اور کاموں سے ایک زمانہ تھر تھر کانپتا تھا۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ جب ان طاقتور لوگوں سے صحافیوں نے سوالات کئے تو سارے بہادر تتر بتر ہوگئے ۔ اس بات کا دکھ ہے وہ تمام سوالوں کا جواب نہیں دے سکے جو صحافیوں کی زبان پر تھے۔ مریم نواز نے اس موضوع پر بات کی اور صرف اتنا کہا کہ ایسے افراد اگر سیاسی جماعت بنائیں اور اسکے پلیٹ فارم سےپریس کانفرنسز کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایسے افسران سیاسی جماعت بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا ایک سیاسی خلفشار پیدا کرنا ان کا مقصد ہے۔ اس کا فیصلہ اس ادارے پر چھوڑ دینا چاہئے جن کی یہ ساری عمر چاکری کرتے رہے ہیں۔