عارف نقوی کی ناکامی کے پوشیدہ اسباب ،خود ان کی زبانی

12 جون ، 2022

لندن(مرتضیٰ علی شاہ )عارف نقوی کی ناکامی کے پوشیدہ اسباب ،خود ان کی زبانی پہلی مرتبہ ان کے ایک انٹرویو کی شکل میں سامنے آئے ہیں،نیوزی لینڈ ٹیلی گراف اور رشین ٹی وی میں شائع ہونے والے عارف نقوی کے ایک انٹرویو کے مطابق کالعدم ابراج گروپ کے سابق سینئر ایگزیکٹوز بھاری رقوم اپنے گھر لے گئے لیکن اس ارب پتی ادارے کی ناکامی یا تباہی کی ساری ذمہ داری عارف نقوی پر ڈال کر امریکی حکومت سے اپنی سزائوں میں کمی کرانے کی ڈیل کرلی۔نیوزی لینڈ ٹیلی گراف اور رشین ٹی وی میں شائع ہونے والے مضمون مین ابراج گروپ کے سابق منیجنگ پارٹنر مصطفیٰ عبدالودود اور ابراج کے سابق مینجنگ پارٹنر سیو ویٹی ویٹ پلائی کے کردار بھی سامنے آئے ہیں ،ان دونوں نے سزائوں کمی کیلئے امریکی حکام کے سامنے اپنے قصور وار ہونے کا اعتراف کیاہے ،اپنی نوعیت کے پہلے انٹرویو میں عارف نقوی نے مشرق وسطیٰ کی اس سب سے بڑی ایکویٹی کمپنی کی تباہی کی ان کہی کہانی سنائی ہے ،عارف نقوی کے سابقہ معاونین ،امریکی حکومت اور مغربی پریس نے عارف نقوی کو ایک برے آدمی کے طورپر پیش کیاہے۔مالیاتی امور پر لکھنے والی لبنیٰ ہمدان اپنے آرٹیکل کیلئے عارف نقوی سے ملاقات کی 2 سال سے کوششیں کررہی تھیں اور آرٹیکل شائع ہونے سے قبل انھوں نے عارف نقوی سے جنھوں نے2002 میں مشرق وسطیٰ میں ابراج کے قیام کے بعد اسے ایشیا،افریقہ ،لاطینی امریکہ ،ترکی اور مشرق وسطیٰ میں 14ارب ڈالر کے اثاثے رکھنے والی دنیا کی20 سب سے بڑی ایکویٹی کمپنیوں میں سے ایک بڑی کمپنی بنادیا تھا ملاقات کی ،ان کی کمپنی نے ہیلتھ کیئر،صاف انرجی ،ٹرانسپورٹیش ،تعلیم اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی اور بل گیٹس، بارک اوباما اور جان کیری شخصیات اپنی کمپنی میں سرمایہ کاری پر قائل کرلیا۔آرٹیکل میں لکھا گیاہے کہ یہی گروپ اپنے قیام کے 16 سال بعد بل گیٹس اور ملنڈا گیٹس فائونڈیشن کے ساتھ فراڈ کرنے کے شبہے میں دیوالیہ ہوگیا۔اوراب اسے امریکہ کے حوالے کئے جانے کے حوالے سے مقدمے کا سامنا ہے جہاں اس پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کے 16 الزامات کا سامنا کرناپڑے گا ،عارف نقوی پر امریکہ کا الزام یہ ہے کہ اس نے مالیاتی گوشوارے تیار کرنے کیلئے دونوں فنڈز میں 400 روپے کی کمی کو عارضی طورپر قرض لے کر چھپانے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔اس نے 200 ملین ڈالر کے خسارے کو ظاہر کرنے سے بچنے کیلئے مالیاتی گوشوارے تبدیل کرنے اور ابراج کومستحکم کمپنی ظاہر کرنے کیلئے کے ایک شیئر ہولڈر اوردوست سے ابراج کیلئے350 ملین ڈالر قرض لینے کاالزام ہے،عارف نقوی نے ان تمام الزامات کو قبول کرنے سے انکار کیاہے اور خود کو امریکہ کے حوالے کرنے کے خلاف مقدمہ لڑرہاہے۔آرٹیکل کی مصنفہ لکھتی ہیں کہ عارف نقوی کی اپنی زندگی اتنی اچھی معلوم نہیں ہوتا اور ان کے بارے میں ناامیدی کی باتیں بھی سننے کوملتی ہیں ، آرٹیکل کی مصنفہ لکھتی ہیں کہ میں سیکٹروں ملین ڈالر چرانے والے سے ملنے کیلئے لندن آئی تھی لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ میں ایک ایسے شخص سے مل کر جارہی ہوں جس نے خود اپنی زندگی سے بھی کچھ چرالیا ہے۔آرٹیکل میں لکھا گیاہے کہ عارف نقوی کی ناکامی کا سفر بعض اخبارات ان کے خلاف چلائی جانے والی مہم سے شروع ہوا اس مہم کے دوران ان کے خلاف جھوٹی باتیں بڑھا چڑھا کر اور افسانہ بناکر پھیلائی گئیں اور انھیں اس طرح پیش کیاگیا جیسے انھوں نے ابراج سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہو اور ان کی اسکیموں کے ارب پتی متاثرین صوفی ہوں ،آرٹیکل میں گارڈین اوروال اسٹریٹ جرنل میں لگائی جانے والی سرخیوں کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں ظاہر کیاگیاہے کہ ایک شخص نے دنیا کی ایلیٹ کو کس طرح بیوقوف بنایا اور ایلیٹ کو سرمایہ کاری کرنے پر کس طرح راضی کیا اورپھر رقم غائب ہوگئی ،نیویارک پوسٹ نے لکھا کہ ایک پاکستانی نے کس طرح بل گیٹس کو 100 ملین ڈالر سے محروم کردیا جبکہ وال اسٹریٹ کے 2 رپورٹرز نے ایک کتاب لکھی جس میں عارف نقوی کو ابراج کی تباہی کاواحد ذمہ دار قرار دیا کتاب میں لکھا تھا کہ ابراج کا ایک سابق اکائونٹنٹ اپنے بستر میں ایک چاقو رکھ کر سویاکرتاتھا جبکہ ایک اور آئی ٹی ایگزیکٹو اپنی کار کے نیچے بم چیک کرتا تھا۔انٹرویو میں کہاگیاہے کہ عارف نقوی اتنا بااثر تھا کہ ابراج کے سابق منیجنگ پارٹنر مصطفیٰ عبدالودود نے رقم جمع کرنے اور سیکورٹیز فراڈ کے 7 الزامات لگنے کے بعد اپنے بیان میں الزامات قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کمپنی چھوڑنا چاہتاتھا لیکن عارف نقوی نے اسے دھمکیوں کے ذریعہ کمپنی کے ساتھ منسلک رہنے پر مجبور کیا،لیکن عوام جانتے ہیں کہ عبدالودود خود بہت ہی با اثر انسان ہے جس کے سابق مصری مالک نقیب ساویرس نے اس کی 10 ملین ڈالر کی ضمانت دی تھی۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق عبدالودود خوددبئی میں امارات ہلز کی اسی پرتعیش کمیونٹی میں رہتاتھا جہاں عارف نقوی رہتے تھے اور ودود اپنی اپارٹمنٹ اوراپنی کشتی پر تعیش پارٹیاں دیا کرتا تھا۔اس کے وکیل نے عدالت میں دعویٰ کیا ہے کہ کہانی کاالمیہ یہ ہے کہ ایک اچھی آدمی ابراج میں عارف نقوی کی پیدا کردہ پاگل پن کے اصلاح کرنے کی کوشش کرنے کیلئے وہاں رکا رہا اوراس دوران خود بھی غلط کاریوں میں ملوث ہوگیا جس کا اس نے اعتراف کیا ہے ،آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ عبدالودود جسے 125 سال تک کی سزا ہوسکتی تھی اپنی سزا میں نرمی اور عارف نقوی کے خلاف مقدمہ بنانے میں مدد دینے کیلئے امریکہ حکام کی مدد کی ۔آرٹیکل کے مطابق ودود نے امریکی حکام کو بتایا کہ وہ ابراج میں بے بس ایگزیکٹو تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ابراج کے منیجنگ پارٹنر سوندرن کے ساتھ ابراج کے معاملات میں اتناہی شریک تھا جتنا خود عارف نقوی۔سوندرن کو 9 الزامات کا سامنا تھا جن میں اسے مجموعی طورپر 115 سال جیل ہوسکتی تھی اس نے اپنی سزا کم کرانے کیلئے جرم قبول کرلیا اوراب اسے عارف نقوی کا متاثرہ شخص تصور کیاجارہاہے اوروال اسٹریٹ نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس نے عارف نقوی کے ساتھ سازش کی تھی لیکن اب وہ اپنے ضمیر کی خلش محسوس کررہاہے ،وال اسٹریٹ جرنل نے ایسا لکھتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی کہ وہ ابراج کا اہم ستون تھا اور ابراج کے ہر معاملے میں برابر کا شریک تھا۔آرٹیکل میں ویتی ویتپلائی کا ایک پرانا قصہ درج کیاگیاہےجس میں ویتی ویتپلائی کہتاہے کہ میں بک کیپر بن کر خوش ہوں کیونکہ مجھے اپنی ملازمت کے فوائد مل رہے ہیں، ویتی ویتپلائی لندن میں ہے اور اسے کسی طرح کی مالیاتی ڈیلنگ کرنے کی ممانعت ہے ،آرٹیکل میں کہاگیاہے کہ مغربی میڈیا کی اکثریت نے عارف نقوی کو عالمی کرمنل سازش کا ماسٹر مائند قرار دیاہے لیکن ایسا کرتے ہوئے ویتی ویتپلائی اور ودود جیسے لوگوں کے اہم کردار کو نظر انداز کردیاہے اورصرف پاکستانی قومیت رکھنے والے کو مدنظر رکھا ہے۔