گندم،تیل پر رعایت،عمران حکومت کیساتھ کسی مفاہمتی یادداشت پر نہیں پہنچے تھے،روسی سفیر

13 جون ، 2022

کراچی(ٹی وی رپورٹ)ایک انٹرویو میں روسی سفیر ڈینیئل گینش نے کہا ہے کہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے کہ مشرف صاحب 2003میں روس آئے تھے، خاص طور پر صدر زرداری نے دورہ کیا تھا مئی2011میں اور عمران خان نے فروری 2022میں دورہ کیا، گندم یا تین پر رعایت کے حوالے سے پاکستان سے رابطہ تھا اور اب بھی ہے تاہم عمران خان کی حکومت کیساتھ کسی مفاہمتی یادداشت پر نہیں پہنچے تھے ، 2020ء میں ہماری وزارت زراعت اور پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکورٹی کے مابین ایک ایم او یو ہوا تھا،مجھے لگتا ہے کہ دورہ روس عمران خان کی حکومت ختم ہونے کی ایک وجہ ہے لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ ایک حسن اتفا ق ہے کہ عمران خان اس دن وہاں موجود تھے جس دن جنگ شروع ہوئی، یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کیونکہ اگر عمران خان کو معلوم ہوتا تو وہ ضرور کوشش کرتے کہ اس دن نہ جائیں اور وہاں موجود نہ ہوں، ایکسپرٹ ہونے کے ناتے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہوں تو بالکل عمران خان کی حکومت کے جانے کی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کا دورہ روس بھی ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان اپنے ملک سے مخلص ہیں، وہ عین اس وقت وہاں موجود تھے جب جنگ چھڑی اور اس کے بعد یہاں حکومت کے جانے کے حوالے سے معاملات شروع ہوگئے۔یوکرین کے 1/5پر قابض ہوچکے ، کیف میں روزانہ 100فوجی ہلاک ہورہے ہیں ، جی ڈی پر گر گئی ، اگلے سال معیشت بحال کرلیں گے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہونگا۔ سستے تیل کی فراہمی کے عمران خان کے دعوئوں کے حوالے سے روسی سفیر کا کہنا تھا کہ ہماری ایک بڑی ڈیل 2020میں ہوئی تھی، 2020میں ہماری وزارت زراعت اور پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکورٹی کے مابین ایک MOUبھی ہوا تھا یہ ایک حقیقت ہے، حالیہ کسی بھی بات چیت کے حوالے سے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہونگا یہ ہماری پالیسی ہے، صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ ہم زراعت اور توانائی کے حوالے سے پاکستان کے لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہیں، یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو کہ عمران خان کی حکومت کے دور میں رابطے میں تھے اور اب بھی رابطے میں ہیں۔ میں یہ تصدیق کرسکتا ہوں کہ ہم ایسے کسی MOUکے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تھے لیکن عمران خان نے یہ نہیں کہا ہم نے کوئی MOUکرلیا تھا، میں اس پر تبصرہ نہیں کرسکتا کہ کس قسم کی رعایات دینے کے حوالے سے بات چل رہی تھی کیونکہ یہ ایک پوشیدہ بات چیت تھی۔ پاکستانی وزارتوں میں کچھ لیکس کا سلسلہ بھی ہے جوکہ جاری شدہ بات چیت کو ظاہر کردیتی ہیں اور وہ ان بات چیت کے خلاف بھی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کون سی ہے، ہمیں تعلق قائم رکھنا ہے اور ہمیں پاکستانی کپڑا چاہئے جو کہ کل بھی چاہئے ہوگا۔ روسی سفیر ڈینیئل گینش نے مزید کہا کہ روسی صدر بالکل ٹھیک ہیں اور 24گھنٹے کام کررہے ہیں۔ یوکرین جنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر ہمیں اپنی سرحدوں کے نزدیک نیٹو کی نقل و حرکت پر اعتراض ہے اور جب یوکرین یہ کہتا ہے کہ وہ نیٹو میں شمولیت اختیار کررہا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیٹو فوجی ساز و سامان کا ہماری سرحدوں کے نزدیک نقل و حرکت ہمارے لئے خطرہ ہے، سوئیڈن اور فن لینڈ کا نیٹو رکن ہونا اور یوکرین کا نیٹو رکن ہونا ہمارے لئے دو مختلف صورتحال ہیں کیونکہ یوکرین نے یہ ظاہر کیا کہ وہ جنگ کیلئے تیار ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ روس مخالف ہے او ر اس کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی پابندیاں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے اور اس نے ہماری معاشی صورتحال کو سست کردیا ہے اور اس سال اسی وجہ سے جی ڈی پی بھی 8.8فیصد گرگئی ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ اگلے سال ہم دوبارہ معیشت بحال کرلیں گے۔ ہم کسی بیرونی ملک کی سیٹلائٹ ریاست نہیں ہیں، ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے اور ہم اس خطرے کو دور کرنے کیلئے کسی بھی انتہا تک جائیں گے، ہم اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ہم اپنے اہداف بھی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور ہمارا ہدف یہ ہے کہ یوکرین نیٹو کا حصہ نہیں بن سکتا تاکہ ہمارے لئے خطرہ نہ رہے، اس وقت کوئی بامعنی مذاکرات نہیں ہورہے بلکہ اس وقت بات ہورہی ہے کہ یوکرین میں مزید فوج کیسے بھیجنی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے روسی سفیر کا کہنا تھا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمیں سب سے پہلے ان کی معیشت کو گرنے سے بچانا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں طالبان کیساتھ بات چیت بھی کرنی ہے تاکہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جاسکے جیسا کہ انسانی حقوق، شراکت داری اور تعلیم، منجمد افغان فنڈز ان کی معیشت کی بحالی کے کام آسکتے تھے۔ مجھے 2017یاد ہے جب دونوں پاکستان اور بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس وقت دونوں نے عہد کیا تھا کہ اپنے اختلافات بھلا کرایک طرف رکھ کر اس میں شمولیت رکھیں گے اور مجھے امید ہے کہ دونوں فریقین اپنے وعدوں کا پاس رکھیں گے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ کسی قسم کی قابل اعتراض رائے جو کسی بھی مذہب کے حوالے سے دی جائے خاص طور پر مسلمانوں کے عقیدے کے متعلق یہ ایک ناقابل قبول عمل ہے، صدر پیوٹن نے 24دسمبر 2021میں کی گئی پریس کانفرنس کے دوران اپنا اصولی موقف بیان کیا کہ یہ آزادی رائے نہیں ہے، مجھے اطمینان ہے کہ بی جے پی نے ان لوگوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے جن سے یہ غلطی سرزد ہوئی ہے، یہ ایک قابل تحسین اقدام ہے۔