بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے سرکاری ٹیلی وژن پر حضرت محمدؐ کی شان میں انتہائی گستاخانہ باتیں کیں لیکن بی جے پی نے اس پر معذرت کرنے کے بجائے نو پور شرما کے بیان کو ذاتی حیثیت میں گردانتے ہوئے صرف اس کی رکنیت معطل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ادھر عرب ممالک میں اس بیان کے ردعمل میں ہندوستانی اشیاء کے بائیکاٹ کی تحریک شروع ہونے پر مجبوراً دہلی پولیس نے اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹ کر خانہ پوری کی لیکن اب تک نہ تو گرفتاری ہوئی اور نہ ہی بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر معذرت کی گئی۔ ہندوستان کے مسلمان جنہیں پہلے ہی ہر وقت اپنی جان و مال کا خطرہ رہتا ہے اب انتہاپسندوں نے جان بوجھ کر انہیں ستانے کے لئے یہ واردات کی ۔انہیں گمان تک نہ تھا کہ باقی اسلامی دنیا کے عوام اس طرح احتجاج کریں گے۔اس کے برعکس زیادہ تر مسلمان حکمرانوں نے اپنے ذاتی و کاروباری مفادات کو مقدم جانتے ہوئے اس مسئلے پر کوئی جاندار اور واضح پوزیشن اختیار نہیں کی۔ ان کی کیا مجال کہ جن کی مرہون منت ان کی حکمرانی ہے ان کے آگے چوں بھی کریں جبکہ مذہب کارڈ تو ویسے بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہی ہوتا ہے۔ کافی عرصے سے مغرب میں بھی مختلف مذہبی پیشوا اور لبرل طبقے میں حضرت محمدؐ کے خلاف کبھی گستاخانہ خاکوں اور کبھی کھلے عام ان کی شان میں بے دریغ ہرزہ سرائی کر کے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے رہیں ہے، یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ اسلام دشمنی کی اسی روایت کے عین مطابق نو پور شرما کی شرمناک ہرزہ سرائی لندن سکول آف اکنامکس کی پڑھی ہوئی اس جاہل نے مغرب کی دی ہوئی لبرلزم کی عینک سے دیکھتے ہوئے اسلام کوبدنام کرنے کی کوشش کی ۔ اس طرح کے الزامات پر اگلے فریق کو منطقی طریقے سے جواب نہ دے سکنا یا معذرت خواہانہ رویہ اپنانا مسلمانوں کی بھی بہت بڑی کمزوری ہے۔ مغربی تعلیم یافتہ سمجھتے ہوئے ہم عقل کل ،بنا تحقیق مذہبی مباحثوں میں پڑ جاتے ہیں۔ ہماری کم علمی کو ہماری تعلیمی اسناد کی روشنی میں ہماری کمزوری سمجھنے کے بجائے ہمارے دین کی کمزوری سمجھا جاتاہے جبکہ ہم خود مضبوط اور واضح مؤقف نہ ہونے کے باعث اپنے دین سے متنفر ہوکر اور دوسرے کی منطق کو قبول کر لیتے ہیں۔پاکستان کی ایک کامیاب اور معروف کاروباری شخصیت نے مختلف معاشی فورم پر اظہار خیال میں معیشت کو بحال کر کے ترقی کی پٹڑی پر چڑھانے کے لیے عمدہ تجاویز دیں۔ وہ ہندوستان سے باہمی تجارت کے داعی ہیں لیکن بین الاقوامی سیاسی معاملات اور نتیجتاً قومی مفادات کو پہنچنے والا نا قابلِ تلافی نقصان کا انھیں اندازہ نہیں۔ ان کی نیت پر شبہ نہیں لیکن یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ امریکہ اور چین میں دشمنی کے باوجود تجارت کی وجہ جغرافیائی دوری اور ایک دوسرے سے اپنی بقاء کو خطرہ نہ ہونا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ سینکڑوں بڑی بڑی چینی کمپنیوں کو ڈی لسٹ کرکے اپنے اسٹاک ایکسچینج سے نکال رہا ہے۔ اسی طرح چین کی"ہواوے کمپنی" کو امریکہ نے سیکورٹی رسک قرار دے کر ملک بدر کر دیا ہے۔ بعینی ڈی پی ورلڈ جو 2006 میں برطانوی کمپنی خریدنے کے باعث امریکہ میں 6 بندرگاہوں کی مالک بن گئی تھی امریکہ نے اس کو اپنے قومی اثاثے لینے کی اجازت نہ دی۔ جہاں تک روس سے یورپ کی تجارت کا تعلق ہے تو یوکرائنی جنگ کے بعد یورپ ہاتھ پیر مار رہا ہے کہ کس طرح تیل اور گیس کے لیے روس پر انحصار کے بجائے متبادل انتظام کر سکے۔ ہندوستان اور چین کے درمیان تجارت بھی ہندوستان کو خوش دلی سے قبول نہیں۔ ان کی تجویز کے مطابق ہندوستان سے خام روئی درآمد کی جا سکتی ہے اور پاکستان سے سیمنٹ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ! بشرطیکہ ہم ہندوستان سے مقبوضہ کشمیر پر معاملات میں قابلِ ذکر پیش رفت، ایف اے ٹی ایف جیسے جھوٹے اور جعلی شکنجے جس میں ہم ہندوستانی ایماء پر پھنسائے گئے نکالنے اور آپس میں تجارتی حجم برابری کی سطح پر یعنی جتنی رقم کی برآمد ہوگی اتنی رقم کی ہی درآمد بھی پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ورنہ ہندوستان نے پاکستان میں ہماری کمزور معیشت کا بھٹہ بٹھا نے کے لئے "ڈمپنگ" یعنی پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پرمال دینا ہے۔ ماضی کی طرح بین الاقوامی سطح پر ہماری ڈمپنگ کی شکایت پر شنوائی ہوگی نہ ہی انصاف ملے گا۔پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی غیر معمولی ترقی اور بڑھوتری کے باعث ہمیں ہندوستان سے خام روئی درآمد کرنے کے بجائے اپنے کسان کو جامع ترغیبات اور سہولیات دینی چاہیں تاکہ زراعت بھی بہتر ہوئے اور ٹیکسٹائل کی صنعت کو بھی سستا خام مال مہیا ہو۔ ہندوستان سے تجارت اس وقت تک بھی ممکن نہیں جب تک وہاں مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ جا رہے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی میں درپردہ اور کھلے عام شامل ہے۔ آئے روز سوشل میڈیا پر کلہاڑیوں، تلواروں اور برچھیوں سے مسلمان مرد و زن ذبح ہونے، ٹکڑے کیے جانے اور گھر بار جلائے جانے کی ویڈیوز آتی ہیں۔ ہندوستانی وزیراعظم ہو یاانکے وزراء، سرکاری عہدیداران ہوں یا نامی گرامی مذہبی پیشوا سبھی اس" مسلمان مکاؤ" تحریک میں پیش پیش ہیں۔ ببانگ دہل اعلان کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں صرف ہندو دھرم والے رہ سکیں گے اور اس کا سیکولر تشخص بھی تبدیل ہوگا۔ ایسے ہندوستان جس نے شملہ معاہدے کی روگردانی کرکے مقبوضہ کشمیر کا تشخص ختم کیا، بلوچستان کی شورش اور علیحدگی پسندوں کی مالی معاونت کر کے وہ ہمارے ملک میں بدامنی پھیلانے کا مجرم ہے۔ جس نے اسٹاک ایکسچینج پر دہشت گردوں سے حملہ کروایا، بم دھماکوں،خود کش حملہ آوروں اور علیحدگی پسندوں کی آبیاری سب کےپیچھے اس کے کھروں کے نشان پائے جاتے ہیں۔ جس کا اعتراف ہندوستانی حاضر سروس افسر جاسوس کلبھوشن یادو نے بھی کیا۔ جو ہماری فوج کے اعلی ٰافسران کی کردار کشی کی مہم چلانے میں ملوث ہے، جس نے ہمارے ملک میں ٹی ٹی پی کی مدد سے دہشت گردی کی لہر پھیلائی ہوئی ہے ، کیا ہم اپنے شہید دوں کے لہو سےبے وفائی کر کے ہندوستان سے تجارت کریں گے۔ ہم چاہیں بھی تو یہ ممکن نہیں! ہندوستان کو پاکستان کا وجود پہلے روز سے قبول نہیں اور نہ ہی ہوگا۔ ممبئی دھماکوں اور پلوامہ جیسے جھوٹے جعلی واقعات کروا کر، ہم پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا نے والوں پر ہم کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں۔ ہماری حکومت نے ہندوستان کی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کیے مگر بین الاقوامی برادری نے ہم سے انصاف نہیں کیا۔یہ وہی ہیں جنہوں نے 74 سال سے کشمیر اور فلسطین کو ان گنت قراردادیں پاس کرکے لٹکایا ہوا ہے لیکن غاصب کو اپنے مفادات کے باعث کچھ کہنے کو تیار نہیں۔ ایسے ہی روس کو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یقین دہانی کرانے والے کہ نیٹو مشرقی یورپ کی طرف نہیں پھیلے گا اپنے وعدے سے یکسر مکرگئے۔ اگر انہوں نے اپنا وعدہ وفا کیا ہوتا تو آج دنیا کے حالات مختلف ہوتے۔ ظاہر ہے افغانستان سے نکلنے کے بعد ان کے دفاعی ٹھیکیداروں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کا بھی روزی روٹی کا سامان کیا جانا تھا جو کہ کیا گیا۔ لہذا ہمارے لئے ان کی یقین دہانیوں اور ضمانتوں پر یہی کہنا کافی ہے کہ" غضب کیا جو تیرے وعدے پر اعتبار کیا"۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنی دینی تعلیمات، اپنی اسلامی تاریخ یہاں تک کہ پاکستان بننے کے سب سے بڑے جواز یعنی اسلام ہی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔مغربی تعلیم اور اس کی لادینیت پر مبنی خیالات ہم پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل اپنی سمت کا تعین نہیں کر سکتی کیوں کہ ہم نے انہیں ماسوائے مادیت پرستی اور معاشی ترقی کے خواب دکھانے کے کچھ نہیں دیا۔ نئی نسل کے اس اس بے منزل اور بے مقصد سفر کے ذمہ دار ہم اور ہماری پچھلی نسلیں ہیں۔ مسلمان اس وقت اپنی تاریخ کے سیاہ ترین دور سے گزر رہے ہیں لیکن ابھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں۔سورج کی پہلی کرن پھوٹنے سے پہلے رات کی تاریکی سیاہ ترین ہو جاتی ہے۔ انشاللہ ظلم اور ناانصافی کی یہ باطل سیاہ رات بھی جلد ہی حق کی روشنی کی کرن پھوٹنے سے ختم ہو جائے گی ۔
بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ایک پسماندہ صوبہ ہے، جن مسائل اور...
مرگِ انبوہ کی شکار صہیونی قوم اپنے پر ڈھائے گئے مظالم پر آج بھی گریہ کناں ہے۔ اب بھی وہ مرگِ انبوہ میں مارے...
بہت سے یورپی ممالک امریکہ اور بعض مشرق بعید کے ممالک کی طرح برطانیہ میں عام پبلک ٹرانسپورٹ کو محفوظ، آرام دہ...
لندن اگر آپ کسی گورنمنٹ ملازم سے یہ راز جاننے کی کوشش کریں کہ آپ نے اس سرکاری ملازمت کو کیوں ترجیح دی؟ تو اس...
پاکستان کو دو لخت کرنے میں بھارتی کردار بین الاقوامی غنڈ ہ گردی کا مظاہرہ تھا۔جس نے بین الاقوامی قوانین کی...
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ خواتین اور بچیوںکیخلاف تشدد ہماری ریڈ لائین...
ہر شخص چین کے اُن پوشیدہ راز وںکو جاننے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ حیران کن طور پرہر میدان میں ہمہ جہت...
طبقہ اشرافیہ جانتا ہے، جب مجبوری چُھٹی پر چلی جائے تو جینے کا مزا دلفریب ہوتا ہے ، اور جب سہولت چُھٹی پر چلی...