سیاسی ڈائری:تحریک انصاف کے مستعفی ارکان ایوان میں واپسی شروع

13 جون ، 2022

اسلام آباد (محمد صالح ظافر/ خصوصی تجزیہ نگار) تحریک انصاف کے مستعفی ارکان قومی اسمبلی کی طرف سے اپنے استعفوں سے برات اور ایوان میں واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا، بلوچستان کے رکن قومی اسمبلی میر جان محمد جمالی کا کسی دھوم دھڑکے کے بغیر ایوان میں واپس آنا اور حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنا ظاہر کرتا ہے کہ ان ارکان سے استعفے مرضی کے منافی لئے گئے تھے، اگر رضاکارانہ طور پر فیصلے کا اختیار ملتا تو محض چند ارکان ہی جماعت کی خواہش کے مطابق نشستوں کی قربانی دیتے، توقع ہے کہ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ختم ہونے تک تحریک انصاف کے مزید ارکان بھی ایوان کا رخ کرینگے اور اپنے استعفوں سے لاتعلقی کا اعلان کرینگے، یہ عجب منافقت ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے ارکان سے استعفی تو لے لئے لیکن انہیں ان کی تصدیق یا تردید کے لئے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے روبرو پیش ہونے سے روکا جارہا ہے۔ اسپیکر واضح کرچکے ہیں کہ وہ کسی رکن کا استعفی قبول نہیں کرینگے تاوقتیکہ رکن خود آکر اس کی تصدیق نہیں کردے گا، تحریک انصاف کی قیادت قومی اسمبلی کے سوا سو ارکان کو آزادانہ فیصلے سے روک کران کی رکنیت کے سوال کو لٹکا کر ان تمام حلقوں کے رائے دہندگان اور شہریوں کو حق نمائندگی سے محروم کرنے کی مرتکب ہورہی ہے۔ ان حالات میں اسپیکر کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ تادیر ان ارکان کی واپسی کے منتظر رہیں قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کی رو سے اگر کوئی رکن لگاتار چالیس روز کسی عذر کے بغیر ایوان سے غیرحاضر رہتا ہے تو کسی بھی دوسرے رکن کی نشاندہی پر اسے حق نمائندگی سے محروم کیا جاسکتا ہے تحریک انصاف کیلئے بہترین راہ عمل موجود ہے کہ وہ اپنے ارکان کو استعفوں کی تصدیق کے لئے اسپیکر کے روبرو پیش ہونے کی تاکید کرے اور یوں خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخاب میں دوبارہ حصہ لیکر اگر وہ عوام میں مقبولیت رکن ہے تو اسے ثابت کرے۔ ممنوعہ غیرملکی ذرائع سے رقوم حاصل کرنے کے سنگین الزام کی پاداش میں معاملے کی تحقیقات میں تحریک انصاف نازک مرحلے کو پہنچ گئی ہےتحریک انصاف کی قیادت کو روز اول سے ہی علم تھا کہ وہ پاکستان کے دشمنوں اور دیگر ناجائز ذرائع سے رقوم یکجا کرکے اپنی سیاست کو چلاتی رہی ہے الیکشن کمیشن نے اس معاملے کی شنوائی کی تو وہ سخت سزا سے نہیں بچ پائے گی اب جبکہ تحریک انصاف کو اپنا انجام نوشتہ دیوار کی صورت دکھائی دے رہا ہے اس نے الیکشن کمیشن میں متفرق درخواست دائر کردی ہے کہ اس کی مد مقابل سیاسی جماعتوں کے کھاتوں کی پڑتال اس کے پہلو بہ پہلو کی جائے اور فیصلہ ایک ساتھ سنایا جائے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور جنگ بندی کی اطلاعات نے پیپلزپارٹی کو درست طور پر برانگیختہ کردیا ہے کسی دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات حکومت کیلئے آسان کام نہیں ہونا چاہئے دہشتگردی کے خلاف کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے ملک کو ایسی تنظیم سے مذاکرات کے ذریعے معاملہ آرائی کرنا پڑے تو یہ ناقابل قبول ہے توقع ہے کہ متعلقہ لوگ پیپلزپارٹی کے اس معاملے میں تحفظات کا خاطر خواہ طور پر ازالہ کرینگے۔