ٹیلر میڈ قانون سازی اور پاکستانی داس کیپٹل

ڈاکٹر مجاہد منصوری
14 جون ، 2022
(گزشتہ سے پیوستہ)
20ویں صدی میں انسانی تہذیب و ترقی کے تیز ترین ارتقانے عالمی سطح کے بڑےتغیر و تلاطم کی شکل اختیار کر لی ۔جتنی عظیم کامیابیاں اتنی ہی بڑے خسارے اور تباہی ۔21ویں صدی کے پہلے عشرے میں ہی گزری صدی کے ڈیزاسٹر کے دور رس نکلے نتائج نے مکمل ثابت کیا کہ انسان تو واقعی خسارے میں ہے کہ اپنی ارضی زندگی کے ارتقا کی انتہا پر پہنچ کر بھی قیامِ اقوام متحدہ کی کامیابی کے چارٹر اور قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر جنگیں، قبضے، اجارے، استحصال و غربت نے بے قابو بڑھتی عالمی آبادی پر غلبہ پا لیا ہے۔ سوویت ایمپائر اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد دنیا کو امن و خوشحالی کا حقیقی گہوارہ بنانے کا جو سنہری اور تاریخی موقع ملا ’’تہذیبوں کےٹکرائو‘‘ کے نظریے کی مکارانہ سیاسی آبیاری اور مسلم دنیا پر پے درپے حملے اور اسے زیر رکھنے کی ذہنیت نے جاری 21ویںصدی کا آغاز 9/11کی دہشت گردی اور اس کے مہلک نتائج سے کیا۔ کل عالم کے لئے حقیقی جمہوریت اور آزادی کا شرمندہ تعبیر ہوتا خواب ڈرائونا خواب بن گیا بغیر جنگ کے بڑھتے پھلتے ممالک پر حملے اور انہیں عدم استحکام اور مرضی کی تعلق داری میں محدود کرنے کی ذہنیت کو عمل میں ڈھالنے کے متحدہ ومنظم ایجنڈوں ،معاہدوں اور اقدامات نے نہ صرف دنیا کی عالمی آبادی میں ’’داس کیپٹل‘‘ کے فیصد کو بڑھایا بلکہ clash of civilizations (تہذیبوں کے ٹکرائو ) کے مہم جو اور حلیف ملکوں کی آلودگی میں ڈوبی قابو آبادیاں قابل رشک حاصل معیار زندگی کی گراوٹ میں چلی گئیں اور ان میں نیم غلام طبقہ پھر پیدا ہو گیا عالمی معاشرے میں شکوک وشبہات، عدم تعاون اور اپنے ہی ’’قومی مفادات‘‘ کے لئے دوسروں کی بیخ کنی کے رواج نے گزری صدی میں جمہوریت، آزادی، سرحدوں کے احترام، حق خود ارادیت ، عالمی فیصلوں، ٹیکنالوجی کے حیرت انگیز فوائد اور بنیادی انسانی حقوق و ضروریات کوغصب اور محدود کرکے عالمی آبادی کے کثیر حصے کو ’’غلامی و نیم غلامی ‘‘کے اثاثے میں تبدیل کر دیا ہے۔ہائبرڈ وار اور عالمی وبا نے آن لیا۔ ممالک کو باہمی تعلق و ربط کے کامیاب ماڈلز کی تقلید کی ’’اجازت نہیں ملی ‘‘عجیب الخلقت اتحاد سے لگے عالمی چارٹر اور اسکے مطابق عملدرآمد کے عشروں سے ہوئے معاہدوں اور عملدرآمد کے منتظر فیصلوں کو ڈیل اوردھونس سے تبدیل کرکے موجودہ صدی اپنے پہلے دو عشروں میں ہی آلودہ، خوفزدہ، غریب اور مجبور و بے بس و بے کس ہو گئی ۔نسل و مذہب کے مہلک تعصب کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے ۔بڑے بڑے سیکولر، لبرل اور جمہوریت کے دعویدار ممالک اس کی زد میں آکر تیزی سے اپنا انسپائرنگ تشخص کھو رہے ہیں
قومی غلبے، نسل و مذہب کی برتری، زیادہ سے زیادہ ملکوں اور خطوں کو مرضی کے دائرہ اثر میں رکھنے کی ذہنیت کو عملی شکل دینے کے جارحانہ اقدامات کے مہلک اثرات ریاستی سطح پر بھی تیزی سے پڑنا شروع ہو گئے ہیں اور ممالک کے اندر طاقتور طبقات اپنی ہی قوم داس کیپٹل بنانے کی ہوس میں مبتلا ہو گئے ہیں جبکہ داس کیپٹل (غلامی کے اثاثے) کے مقابل کارل مارکس کا اتنا ہی ظالم و جابر حل کمیونزم عملی شکل میں پورے دبدبے سے دنیا کے ایک بڑے حصے کو 7عشروں تک جبرو جمود میں مبتلا رکھنے کے بعد بری طرح پٹ کر تحلیل ہوگیا واحد سپرپاور بن کر امریکہ نے نیٹو کی چھتری میں خوشحال ترین ممبر ممالک کو ہی ’’داس کیپٹل ‘‘ نہیں بنائے رکھا ۔اپنی ہی مرضی کی برتری بڑھاتے اور قائم کرتے کرتے انہیں بھی نیٹو کی طرف مائل کر دیا جو عشروں سے اپنا غیر جانبدارانہ اور پرامن تشخص رکھنے میں کامیاب تھے۔ سو اب سویڈن اورفن لینڈ جیسے ممالک بھی نیٹو کے متلاشی ہیں ۔
دنیا کی جنگ زدہ اور جنگی امکانات و خدشات میں گھری صورتحال اور حالات حاضرہ کے واقعات نے عالمی وار لارڈز کا داس کیپٹل کے استعمال اور اسٹیٹس کو پر انحصار بڑھا دیا ہے جس سے کثیر غریب آبادی کی آزادی، خوشحالی اور خود انحصاری بری طرح متاثر اور ریورس ہو ر ہی ہے ۔یہ شیطانی کھیل پورے عالمی معاشرے اور ریاستوں کے اندر اپنے ہی عوام کو داس کیپٹل بنائے رکھنے اور بڑھانے کے استحصالِ مسلسل میں تبدیل ہو کر عالمی معاشرے کے لئے مہلک صورتحال پیدا کر چکا ہے۔جو کچھ 9/11اور عرب اسپرنگ کے بعد مسلم ممالک کےساتھ ہوا اور ہو رہا ہے بھارت میں 30فیصد اقلیتی مسلم، سکھ اور عیسائی آبادی کےساتھ ہو رہا ہے ۔مصر میں بنتی عوامی طاقت کو جس طرح واپس داس کیپٹل میں تبدیل کیا گیا۔ جو مظالم بھارتی اور کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے ہیں بھارتی کسانوں کےروزگار کے حق کو سرکاری رخنوں سے غصب کرنے کے خلاف سال بھر کا دھرنا دینا پڑا۔ امریکی غرباء کی تحریک کو آکو پائی وال اسٹریٹ موومنٹ کس طرح ٹھکانے لگی۔
بے پناہ توجہ کی طالب، حساس اور اپنی وسعت کے اعتبار سے عالمی معاشرے کا ایک بڑا حصہ سرمایہ دار عالمی طاقتوں، اداروں اور عوام اپنے ہی ملک میں اپنی ہی حکومتوں کے ہاتھوں کس طرح داس کیپٹل بن گئے یا اسی حالت میں رکھے جا رہے ہیں؟ جدید دور میں غلامی کی کتنی اقسام داس کیپٹل کی شکل میں موجود ہیں۔ عالمی معاشرے، حکومتوں اور عوام میں اس سے آگہی کا کتنا شعور ہے، کتنے فیصد؟ کس ریجن اور کس ملک میں کتنا؟ اس کے خلاف انسانیت حقیقت کی اصلیت کا پردہ چاک کرنا جتنا وسیع معتبر کارخیر ہے ٹیکنالوجی نے اسے آسان تر بنا دیا ہے۔
موضوع وسیع ترین ہے لیکن پاکستان کی موجودہ بدترین اقتصادی حالت، جاری اور پیچیدہ ترین آئینی و سیاسی بحران میں، پاکستان کی غیر پارلیمانی ہوئی لیکن پھربھی اور سب سے بڑی تحریک نے ’’غلامی اور نیم غلامی‘‘ سے نجات اور ملک کو پارٹیسپٹری اپروچ کے ساتھ گڑھےسے نکال کر چلانے بڑھانےکا مقدمہ قوتوں اور عوام کے سامنے پیش کر ہی دیا ہے تو علمی سیاسی حلقوں کا اس پر انہماک اور اجتماعی دماغ سوزی سے اتری پٹری سے حقیقی اور قابل قبول انتظامی گاڑی کو دوبارہ چڑھانا ناگزیر ہوگیا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ پاکستان میں ترقی اور فلاح کے دروازے کھول کر ملکی داس کیپٹل کو نارمل عوام اور نارمل ایمپاورڈ سوسائٹی میں تبدیل کرنا ہر باشعور پاکستانی کا فرض ہے، کیسے نبھانا ہے؟ کتنا اور کب نبھانا ہے؟ ابھی تو صورت یہ ہے کہ حکومت کرنے کے لئے شیشے کے نازک گھر میں گھسائے گئے سورما حق احتجاج پر ہمارے معاشرے کے محترم خواتین و حضرات پر دہشت گردی اور غداری کے مقدمات قائم کر رہے ہیں۔ وہ خودداس کیپٹل ہیں اور غریب عوام کو برسوں سے بنائے ہوئے اور پوری آبادی کو بنانے پرتلے ہیں۔
سو، پاکستان میں آمریت ہی نہیں جمہوریت کے نام پر آبادی کا کثیر حصہ مارشل لائوں اور آئینی ادوار میں بھی داس کیپٹل ہی بنا آ رہا ہے۔ اس کی انتہا حالیہ ٹیلر میڈ قانون سازی ہے جس میں قومی سیاسی و حکومت پر قابض غالب خاندان نے اپنے احتساب اور عوامی سرکوبی کے لئے اور انتخابی عمل کی قانون سازی مکمل من پسند کی ہے لیکن داس کیپٹل کہتا ہے یہ نہیں چلے گی۔