سر رہ گزر

اداریہ
19 جون ، 2022
پروفیسر سید اسرار بخاری
ایسے تو کبھی حالات نہ تھے
اونچ نیچ آتی رہی مگر ایسا تو کبھی نہ دیکھا کہ ہر قدم کنویں میں اور سر سوا نیزے پر، آئی مہنگائی میں، یہ قصہ ہے 2018 سے پہلے کے پاکستان کا، اب تو اندرونی بیرونی جبر ہے کہ جینے نہیں دیتا مرنے نہیں دیتا، ہمیں یاد ہے 2018 کے انتخابات سے پہلے ہم اس حد تک مجبور نہ تھے کہ ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
پاکستان کی اس نادیدہ سیاست گری کا
بہرحال آج سے ہماراگزرا کل بہت بہتر تھا، حالات کا جبر ہمیں اس طرح نہیں بھنبھوڑ رہا تھا، ایک ناکام تجربے نے ہمیں پوسٹ مارٹم کے پھٹے پر پہنچا دیا اور اب کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں، چمن کا موسم ایسا تو نہ تھا کہ پھول کھلتے ہیں نہ بلبل نغمہ سنج، ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہم اپنا مطلب نکالنے کےلئے اچھے اچھوں کے اشعار سے وہی کرتے ہیں جو اپنے وطن سے کر رہے ہیں، اب نوزائیدہ، ناپختہ، ناتراشیدہ سیاست میں پہلی بار قدم رکھنے والوں کے قدم چومیں کہ اپنے ذوق انتخاب پر تبرا پڑھیں، ایک برخود غلط کئی غلط گرد اکٹھا کرکے شیرازہ ہی بکھیر دیا،اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا؎
بڑے جو ہیں وہ بے ثمر موجود ہیں خیرہ سر
عطا نہیں، کرم نہیں، ادب نہیں، وفا نہیں
٭٭٭٭
دل ہی تو ہے نہ ریشم و حریر
عمران خان کہتے ہیں: کرپشن کیسز کی تفتیش کرنے والوں کی اچانک اموات پر سوالات اٹھتے ہیں، 22 کروڑ کے ملک میں اگر لوگ ہارٹ اٹیک سے مرتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل کیسے ہو سکتی ہے کہ انہیں ٹارچر کیاگیا اور وہ دل ہار گئے، کیا کسی قانون کے تحت یہ بات قابل قبول ہے، یوں اندازوں اور ہوا میں باتوں سے کب عدالتوں کو قائل کیا جاسکتا ہے، اور جو بات عقل تسلیم نہ کرے اور اندازوں پر مبنی ہو بھلا اس کو زمینی حقیقت تسلیم کرنا تو ہوائوں میں رہنے کے مترادف ہے، انسانی دل پتھر ، اینٹ تو نہیں کہ ٹوٹے ہی نہ، اور یہ بات بھی پہلی بار سنی ہے کہ فلاں کو اتنا دبائو میں لایا گیا کہ مر ہی گیا، ایسی باتیں جو معقولات سے تعلق نہ رکھتی ہوں ان پر سوال اٹھانے ہی سے کرسی سے اٹھ گئے، رموز حکمرانی کا ادراک نہ ہو تو اچھا ہے کہ اسپتال، اسکولز بنائے جائیں، اور بنچ بدلنے پر عدلیہ کو الزام دینا بھی اچھی بات نہیں ، کیوں اپنے اداروں کو قابل اعتبار نہیں رہنے دیتے، ہر روز دل فیل ہوتے ہیں اگر دبائو ہی سے دل جواب دے جاتے تو ہماری آبادی آج نصف رہ گئی ہوتی، میڈیکل سائنس باتوں سے دل ٹوٹنے کو نہیں مانتی، اگر اللہ نے آپ کو لاکھوں دعائوں سے وزیراعظم بنا دیا تھا تو آتے ہی خاموشی سے ملک کی معیشت کو اور اونچا لے جاتے، کرپشن کی تکرار شروع کرنے کےبجائے معاشی و معاشرتی حالات کو درست کرتے، ہم نام نہیں لیتے مگر جس ہالے میں یہ چاند نکلا ہے بھلا یہاں خاک چاندنی ہوتی اور عوام کی چاندی،اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں، لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرتے، انہیں غیرت کے نام پر بھوکا نہ مارتے۔
٭٭٭٭
ذہنی دیوالیہ
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے دنیا میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص ذہنی بیماری کا شکار ہے، اگر عالمی ادارہ صحت ہمارے لئے حجت نہیں تاہم ہم میں سے جو بھی کہتا ہے فلاں تو پاگل ہے، جان لیں کہ وہ خود دیوانہ ہے، ہم تو صرف اسی بات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ جن ملکوں کے لوگ خوشحال ہیں، وہ عقلمند اور جہاں افلاس کی کثرت ہے وہاں عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کو سچ ماننے میں چنداں حرج نہیں، عوام یا حکمران دونوں میں سے ایک یا باجماعت ذہنی مرض کا شکار ہیں، جو بھی خود کو عقل کل سمجھے اسے فارغ سمجھیں۔
یہ جو غربت ہے یہ بھی بے عقلی کی ایک واضح دلیل ہے، دلوالیہ بھی وہی ریاستیں ہوتی ہیں جہاں ذہنی دیوالیہ پن پہلے ہی موجود ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں بھی ہر آٹھواں شخص ہی ذہنی بیمار ہے باقی صرف مکار ہیں، تاکہ وہ چین سے رہیں، ہمارے ہاں عقلمندوں کی کمی نہیں مگر اکثر آپ کو بیرون وطن ہی ملیں گے، اس ذہنی بیماری کی اصل وجہ انا پرستی ہے خود شناسی نہیں، آئی ایم ایف کا ہمارے بارے ایک شعر ہے؎
میری یہ بے چینیاں اور ان کا کہنا ناز سے
ہنس کے تم سے بولتے ہیں اور اب ہم کیا کریں
٭٭٭٭
عقل ہے محوِ تماشا
...oایک وزیر سید حسن مرتضیٰ کا قول ہے، عمران خان گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا چھوڑ دیں۔
سنا ہے اب گرگٹ نے بھی رنگ بدلنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ مارکیٹ میں اس کے فن کی نقالی چل نکلی ہے۔
...oاگر غیروں سے شناسائی کرناتھی تو کسی تگڑے سے یاری لگاتے، شاید ہمارے دن پھر جاتے۔
...oہماری دانشمندانہ سیاست کے کیا کہنے، اگر شروع دن سے کالا باغ ڈیم بنا لیتے تو کتنے ہی مسائل دفن ہو جاتے مگر ذاتی سیاسی مفادات نے ہمیں یہ بھی کرنے نہ دیا۔
...oعرفان صدیقی: چھوٹے ملازمین اور اعلیٰ افسروںکی تنخواہوں میں ایک ہی شرح سے اضافہ ناانصافی ہے۔
ویسے انصاف تو یہ ہے کہ صرف چھوٹے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے، ہمیں معلوم نہیں صدیقی صاحب کیا چاہتے ہیں اور عدل کا کونسا پیمانہ رکھتے ہیں، بہرحال اچھی امید ہے کہ وہ چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں بڑا اضافہ چاہتے ہوں گے۔