بچوں کی حفاظت، سب کی ذمہ داری

احمد وقاص ریاض
19 جون ، 2022
امریکہ کی ریاست میسا چوسٹس کے شہر لوول میں ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا جب ایک تین سالہ بچہ اپنی بے بی سٹر کے مکان سے لاپتہ ہوگیا۔ مقامی پولیس ، ریاست کی پولیس ، فائر بریگیڈ، 9-kیونٹ ، غوطہ خور ٹیم اور عام شہری ساری رات اسے تلاش کرتے رہے اور اگلے دن اسکی لاش قریبی جوہڑ سے غوطہ خوروں نے تلاش کر لی۔ بچے کے والدین اسے نگہداشت کرنے والی کے پاس چھوڑ کر ملازمت پر گئے ہوئے تھے ۔ اس سے قبل مئی میں امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک ایلیمنٹری اسکول میں انیس کم سن بچوں کو ایک جنونی شخص نے کلاس روم میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیاتھا۔ اس اندوہناک واقعے میں ایک ٹیچر بچوں کو بچاتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی، اس واقعہ نے اے پی ایس اسکول کے سانحے کی یاد تازہ کر دی جب اپنے طالب علموں کو بچاتے انکی پرنسپل نے اپنی جان بھی قربان کر دی۔
اقلیتوں کی زندگی اجیرن کرنے والے ملک بھارت سے ایک اچھی خبر، ریاست چھتیس گڑھ کے ایک گاؤں میں دس سالہ گونگا بہرہ بچہ کھیلتے ہوئے اپنے گھر کے پچھواڑے اسی فٹ گہرے کنوئیں میں گر گیا اور مقامی افراد کی کوششیں ناکام ہوئیں،ریسکیو کی خصو صی ٹیمیں طلب کر لی گئیں ۔ تنگ کنوئیں میں پانی کی سطح کم کرنے کے لئے مرکزی واٹر سپلائی بند کر دی گئی اور اطراف کے گھروں کے پانی کے نل اور موٹریں چالو کر دی گئیں ۔ پانچ دن بعد برابر سے سرنگ کھود کر بچے کو زندہ بچا لیا گیا جسکی ہمت کی داد سبھی دے رہے ہیں ۔ چند ماہ قبل مراکش میں پانچ سالہ بچہ سوفٹ گہرے تنگ کنوئیں میں پانچ دن تک پھنسا رہا جسکے لئے دنیا بھر سے لوگوں نے ہمدردی کے پیغامات بھیجے مگر وہ امداد پہنچنے سے قبل جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اسکے چند ہفتے بعد افغانستان میں بھی ایسا ہی ایک دلخروش واقعہ پیش آیاجب ایک چھ سالہ بچہ تنگ گھاٹی میں گرنے کے بعد تمام تر کوششوں کے باوجود زندہ نہ بچ سکا۔ ہمارے ملک میں بھی آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ جس میں معصوم جانیں ظلم ، زیادتی اور غفلت کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں جبکہ بچوں پر جسمانی ، ذہنی اور جنسی تشددکے خلاف آواز اٹھانے والے بھی خال خال نظر آتے ہیں۔ چند روز قبل راولپنڈی کے قریب ایک قصبے میں ٹیوشن پڑھانے والے درندہ صفت انسان نے دس سالہ بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کر دیا اور موقع سے فرار ہو گیا۔ بد قسمت بچی کے والد کے بیان کے مطابق پانچ بھائی بہنوں میں وہ سب سے بڑی تھی اور شام کو ٹیوشن پڑھنے قریبی بیٹھک جاتی تھی، جہاں سے وہ رات گئے تک واپس نہ لوٹی تو اسکی تلاش شروع ہوئی اور چند گھنٹوں بعد اسکی خون آلودہ لاش قریبی قبرستان سے ملی۔ وزیرا علیٰ پنجاب نے اس دل دہلا دینے والے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مجرم کی فوری گرفتاری اور رپورٹ پیش کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں جبکہ مختلف سیاسی و سماجی تنظیمیں اس سانحے کو نظر انداز کرکے دوسرے معاملات میں مشغول ہیں۔
حال ہی میں لاہور کے ایک پارک میں کھیلتے بچے کو دو سنگدل افرادنے اغوا کر کے والدین سے بھاری تاوان کا مطالبہ کر دیا اور رقم نہ ملنے پر بچے کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی اس کیس میں عوام و میڈیا کی توجہ اور پولیس کی مستعدی سے نہ صرف بچہ بحفاظت بازیاب کر ا لیا بلکہ مجرم بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔دو روز قبل گلگت بلتستان کے سیاحتی مقام نلتر جھیل میں ایک بچہ ڈوب گیا اور جب اس کو نکالا گیا تو اسکی سانسیں بند تھیں ، اس موقع پر ایک لیڈی ڈاکٹر اور انکے شوہر جو سیاحتی ٹور پر آئے ہوئے تھے انہوں نے فوراً سی پی آر اور مصنوعی تنفس کے ذریعے اس بچے کی جان بچائی بچے کے والدین ، مقامی افراد اور انتظامیہ کو اللہ تعالیٰ کے کرم کے بعد اس وزیٹر جوڑے کا احسان مند ہونا چاہئے جو اسوقت وہاں موجود تھا۔ جرائم ، حادثے اور آفات کہیں بھی کسی بھی وقت رونما ہو سکتی ہیں مگر جدید ٹیکنالوجی بھرپور تیاری،بہتر حکمت عملی اور عوام کے تعاون سے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔
یو این چارٹر میں بچوں کے حقوق کے تحفظ پر بہت زور دیا گیا ہے مگر بد قسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں کم عمر بچے سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہیں ۔ پاکستانی معاشرے میں بھر بڑھتی ہوئی گھٹن ، ناانصافی ، معاشی نا ہمواری ، وسائل کی کمی اور آبادی میں اضافے نے بچوں کےلئے خطرات بڑھا دیئے ہیں جسکے خاتمے کےلئے ریاست اور عوام کو ملکر کوشش کرنی ہو گی تاکہ ہر بچے اور بچی کو صحت ، تعلیم ، تحفظ اور بنیادی حقوق برابری کی سطح پر مل سکیں ۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں )