یہ کمپنی چلے گی

نواز رضا
19 جون ، 2022
سیاسی شعور اور سوجھ بوجھ رکھنے والےافراد کی شہباز شریف حکومت کے مستقبل بارے پیش گوئیوں میں وزن ہو سکتا ہے لیکن اب معمولی سوجھ بوجھ والے سیاسی کارکن بھی دو ارکان کی اکثریت پر قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں ۔جوں جوں مہنگائی بڑھ رہی ہے موجودہ حکومت سے نالاں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 6بلین ڈالر کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کے پاس کشکول اٹھائے حکومت کی پریشانی بھی دیدنی ہے وفاقی بجٹ میں نئے ٹیکس عائد کرنے کے باوجود آئی ایم ایف ناخوش دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلی حکومت سے کئے گئے وعدے پورے کرنے پر ہی آئی ایم ایف موجودہ حکومت سےمعاہدہ کرے گا عمران حکومت کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں نے موجودہ حکومت کو لہو لہان کر دیا ہے دو ماہ گزرنے کے باوجود موجودہ حکومت سنبھل نہیں پائی ۔اب تو عمران خان بھی کہنے لگے ہیں کہ موجودہ حکومت ڈیڑھ دو ماہ کی مہمان ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔ صدر مملکت عارف علوی موجودہ حکومت کی اکثرو بیشتر جاری کی گئی ایڈوائسز کو روکے بیٹھے ہیں اب تک موجودہ حکومت کی ایڈوائس پر گورنرپنجاب سمیت کچھ تقرریاںکی ہیں گورنرپنجاب کی تقرری پر صدر مملکت نے جس طرح وفاقی حکومت کو تگنی کا ناچ نچایا ہے، وہ بھی ہماری پارلیمانی تاریخ کا افسوس ناک باب ہے۔ ابھی تک 3صوبوں میں گورنروں کی تقرری عمل میں نہیں آئی مخلوط حکومت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں حکومت کو اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھانے میں اصول و ضوابط کو بھی نظر انداز کرنا پڑتا ہے شنید ہے قومی وطن پارٹی موجودہ حکومت سے نالاں ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے آفتاب شیر پائو کو حکومت کا حصہ بننے کی دعوت دی لیکن انہوں نے ناراضی کے باعث معذرت کر لی۔ علی وزیر نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کے حق میں ووٹ دیا تھا اس وقت ان کو خاص طور پر کراچی سے لا یاگیا تھا لیکن انہیں بجٹ اجلاس میں نہیں لا یا گیا ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنےکیلئے میاں رضا ربانی کو بیان جاری کرنا پڑا علی وزیر گزشتہ 15ماہ سے زیر حراست ہیں ۔
پنجاب اسمبلی میں حکومت اورا سپیکر کے درمیان لڑائی نے شدت اختیار کر لی ہے پنجاب کی تاریخ میں پہلی صوبائی اسمبلی کے الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے ، اقتدار کی جنگ نے اس حد تک شدت اختیار کر لی ہے۔ پی ٹی آئی نے وفاق میں اپنے آپ کو پارلیمانی سسٹم سے باہر رکھنے کیلئے قومی اسمبلی کی 131نشستوں سے استعفے دے دئیے تھے لیکن مستعفی ارکان اپنے استعفوں کی تصدیق کے لئے تیار نہیں ایک رکن جان محمد جمالی ایوان میں واپس آگئے پی ٹی آئی کے مستعفی ہونے والے ارکان کا معاملہ التوا میں رہنے کا امکان ہے۔پی ٹی آئی نےپنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی پالیسی بالکل مختلف ہے اس نے جہاں پنجاب اسمبلی میں سبطین خان کو اپوزیشن لیڈر مقرر کر کے عملی طور حمزہ شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ تسلیم کر لیا ہے وہاں وہ ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہے، عمران خان خود 20 انتخابی حلقوں کا دورہ کرنے والے ہیں۔
شیخ رشید احمد موجودہ حکومت کے لئے ’’بارودی سرنگیں ‘‘ بچھانے کا پہلے ہی اعترا ف کر چکے ہیں اب سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے رہی سہی کسرنکال دی ہے انہوں نےکہا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک (چار سالوں )پی ٹی آئی کی حکومت نے قرض کا 80نہیں 76فیصد لیا ہے، یہ سب سے بڑی بارودی سرنگ ہی تو ہے۔ موجودہ حکومت کو 20ہزار ارب کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے یہ بارودی سرنگ موجودہ حکومت کو کسی بھی وقت اڑا سکتی ہے ۔مفتاح اسماعیل نے 9502 ارب روپے کا بجٹ تو پیش کر دیا ہے بظاہر نئے ٹیکس کم لگائے ہیں یہی وجہ ہے بجٹ پر اپوزیشن نے کوئی زیادہ شور شرابہ نہیں کیا البتہ عمران خان نے بجٹ کو ’’عوام و کاروبار ‘‘ دشمن قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت کو بجٹ منظور کرانے میں کوئی مشکل تو درپیش نہیں آئے گی لیکن آئی ایم ایف جس سے6 بلین ڈالر کے مزید قرضے کی بات چیت چل رہی ہے وفاقی بجٹ پر ناخوش دکھائی دیتا ہے اور مزید ٹیکس عائد کرنے کی فرمائش کر دی ہے مفتاح اسماعیل نے جون کے وسط میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے پاکستان کے عوام کو ناراض اور آئی ایم ایف کوخوش کر دیا ہے، اس کے ساتھ ہی آئند ہ پندرہ دنوں میں مزید سخت فیصلوں کا عندیہ دیا ہے شاید یہی وجہ ہے عمران خان نے پیش گوئی کی ہے بجٹ کے بعد موجودہ حکومت رخصت ہو جائے گی ۔جہاں تک آئندہ ڈیڑھ مہینہ میں حکومت کے رخصت ہونے کا معاملہ ہے یہ عمران خان سمیت موجودہ حکومت کے مخالفین کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔اس لئے میں کہتا ہوں ’’یہ کمپنی اگست 2023ء تک چلے گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اکٹھے چلنے کا دس سالہ معاہدہ ہو گیا تو پھر یہ کمپنی زیادہ دیر چلے گی۔