تکراری ٹچ اور خواہش ٹُچ !

حنا پرویز بٹ
19 جون ، 2022
زندگی زیر بحث ہو یا سیاست،مخصوص "ٹچ" کو "ٹچ" کرنا ہماری فطرت ہے یا علت ؟ ماہر نفسیات و منشیات ڈاکٹر صداقت علی کہتے ہیں "مخصوص دائرے" میں رہتے ہوئے یکساں موضوع دہرانے والا ایسے ہی "لوپ" میں ہوتا ہے جیسے کوئی "بھنور" میں پھنسی ہوئی کشتی۔
اس "کیفیت" کے زیر اثر "ٹچ" کو "ٹچ" کرنے کی "طلب" جب شدت پکڑتی ہے تو "لوپیا" نہ صرف "ٹچی" قرار پاتا ہے بلکہ اس "ٹچ" کی "تکرار" کرنے پر پرلے درجے کا " ٹُچا" کہلاتا ہے۔
میدان کوئی بھی ہو کھیل کیسا بھی ہو ایسا " ٹُچا" ، "عالم بےخودی" میں ایسے ایسے مطالبے اور افعال کر ڈالتا ہے جو بعض نہیں اکثر اوقات ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہوتے ہیں،اگر ایسے " ٹُچے" کا علاج نہ کیا جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر " دم " دے دیتا ہے۔
"ٹچ " کی تکرار سے "دیسی ٹچ" زدہ کھیل "بنٹے" اور "لٹو" یاد آگئے،جن میں ہارنے والا جیتنے والے کو بنٹے یا لٹو دیتا تھا، لیکن خراب بنٹے یعنی " ٹُچل بنٹے" اور خراب لٹو یعنی "ٹپل لٹو" قبول نہیں کئے جاتے۔
یہ ضابطہ صرف کھیل ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر لاگو ہوتا آیا ہے، پھلوں کی خریداری سے لیکر رشتوں کے چنائو تک بہترین انتخاب کا "ٹچ" ترجیح ہوتا ہے، لیکن حیران کن طور پر سیاست میں بہترین انتخاب کے "ٹچ فارمولے" پر عمل ہوتا بالکل نظر نہیں آتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے جہاں وفاق میں" ٹُچ زدہ " کے ہمراہ پنجاب میں "ڈمب بزدار " جبکہ کے پی میں" ممود ٹچ" نے ملک کا "دیوالیہ ٹچ" آن کردیا ہے۔
دکھ کا معاملہ تو یہ ہے کہ ملک کو تباہ کرنیوالا اپنا "جرم تسلیم" کرنے کی بجائے سینہ زوری کئے جارہا ہے اور اس کا منہ بند نہیں کیا جارہا ہے۔
کان سے پکڑ کر اقتدار سے نکالا گیا تو "پھنکار ٹچ" آن کرکے قوم پر ایٹم بم چلانے کا "زہریلا بیان" چھڑک دیا،ابھی اسکے اثرات زائل نہیں ہوئے۔ اسی خوفناک صورتحال کے بارے حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد نے کئی سال پہلے پیش گوئی کردی تھی۔
اب حالت یہ ہے کہ مقتدر حلقوں کی امیدوں کی " شمع " بجھانے والا "چنبل " میں مبتلا ہوچکا ہے، بلاناغہ تقاریر اور انٹرویوز میں یکساں موضوع پر نفرت زدہ گفتگو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، "سازشی خط ٹچ" مسترد ہوا تو صبح دوپہر شام "امپورٹڈ حکومت نامنظور" کی شرلی چھوڑ دی، پھر بھی بات نہ بنی تو کور کمیٹی کی مخالفت کے باوجود لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر ڈالا جو توقع کے عین مطابق "ٹھس" ہوگیا،
"اسلامی ٹچ" کے لقمے نے ایک بات ثابت کردی ہے کہ "کانوں کا کچا" کیسے اپنی تقاریر کو"ڈرامائی ٹچ" دیتا ہے، حیران ہوں ملک کو دیوالیہ بنانے والا کس "ہٹ دھرمی" سے بولتا ہے کہ ملک کو بچانے کا ٹھیکہ صرف ہمارا نہیں۔
جتنے "یوٹرن" لئے اس نے لئے ، اس میں اس نے "نائن زیرو" کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
"جہادی ٹچ" سن کر دھمالیں ڈالنے والے "زومبیوں" کو جب "رسوائی ٹچ" کا سامنا ہوا تو انھوں نے خاصی خواری محسوس کرتے ہوئے اپنے لیڈر کی جانب دیکھا
لیکن ان کا " بہادر سالار" اسلام آباد سے ہی"فراری ٹچ" لیکر پشاور کا مکین بن گیاہے اور ہر ادارے کے بارے میں ہرزہ سرائی کررہا ہے۔
اس کو جگہ " محفوظ پناہ گاہ" سمجھنا خام خیالی ہے کیونکہ جب ریاست کسی فرد کو "زندان ٹچ" دینے کا سوچ لیتی ہے تو اسے ذرہ برابر بھی دقت نہیں ہوتی ۔
این آر او کے" انکار ٹچ " کی تکرار کرنے والے "سلطان واہی تباہی" کا فیس سیونگ "پیچ اپ ٹچ" جیسے ہی آشکار ہوا تو سوشل میڈیا پر تبصروں کا طوفان آگیا، ایک دلچسپ جملہ یہ رہا" گالاں کڈنیاں امریکہ نوں، تے ترلے ٹھیکیدار دے "،
دوسرا فقرہ کسی شرارت سے کم نہیں اور وہ ہے"بونگا کسی’ٹچ‘ نہیں بلکہ ’ٹُچ" کی تلاش میں ہے۔
آخر میں پیش ہے ایک پیروڈی شعر ۔۔۔
خندی و بازاری مانند تھے اسکی سنگت میں نگ
اور چار سو تھے کھڑے ٹُچے وہاں مثل سگ