بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کیوں؟

سید عارف نوناری
19 جون ، 2022

بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن مکمل ہوگئے ہیں جس میں زیادہ تر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جبکہ سندھ میں بھی جولائی میں بلدیاتی الیکشن متوقع ہیں۔ پنجاب کا 2021 کا بلدیاتی نظام اب ختم ہو گیا ہے کیو نکہ مقررہ وقت پر الیکشن نہیں ہوئے جو پہلے مرحلہ میں پنجاب کے چند اضلاح میں مئی میں ہونا تھے۔ 1999 میں پرویز مشرف نے جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا ، قومی تعمیر نو کاپہلا چیئرمین جنرل تنویر نقوی کو لگایا گیا اور پھر دانیال عزیز کو مقرر کر دیا گیا، 2001میں پرانے بلدیاتی نظام کو تبدیل کر کے devolution plan کو لایا گیا اور ناظم کو ضلعی سطح پر تمام اختیارات دے دیئے گئے ۔اس میں اہم بات یہ تھی کہ مالی اختیارات بھی ناظم کے پاس تھے جس سے مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کو لانے میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوئیں اور ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز سے تیز تر ہو گئی اور بیوروکریسی کی حائل رکاوٹیں بھی بہت کم ہوئیں ،اس نظام کو لانے میں قومی تعمیر نونے بہت سے ممالک کے بلدیاتی نظاموں کا جائزہ بھی لیا اور بہت سےممالک کے دورے کر کے مشاہدات سے بھی مدد لی گئی ،جب یہ نیا نظام نافذ ہوا تو اس پر بہت تنقید کی گئی کہ ترقی پذیر ممالک میں ایسا نظام کامیاب نہیں ہو سکتا devolution plan ، 2001 سے لیکر 2017 تک قائم رہا اور اس میں سارے محکمے ضلعی حکومتوں کے ما تحت کر کے اختیارات کو نچلی سطح تک لایا گیا جس سے بیوروکریسی کو ای ڈی اوز کی شکل میں اس نظام میں شامل کیا گیا اور ملازمین کو دو کیٹگریز میں رکھا گیا، لوکل گورنمنٹ کے ملازمین کو بھی اے جی آفس سے تنخواہوں کے سلسلہ میں ایمرج کر دیا گیا لیکن 2017تک لوکل کونسل کے ملازمین کو ضم نہ کیا گیا بلکہ 16 سال ان کو لٹکائے رکھا ،جس سے ان کا بہت نقصان ہوا پہلے پہل اس نئے نظام کو نافذ کرنے میں بہت سی مشکلات پیدا ہوئیں اور تین سے چار سال اس کو سمجھنے میں لگے لیکن جب اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تو اس کو ختم کر کے پھر ایک بار نیا بلدیاتی نظام لایا گیا ،کم عقلی دیکھیں کہ devolution plan جو اتنے سال شاندار طریقہ سے اپنا مقام بنا گیا ،کیا اس کو تبدیل کرنا مناسب تھا ،ہرگز نہیں!پاکستان میں بلدیاتی اداروں کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس سے قومی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے استحکام پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں اورپاکستان کے سیاسی نظام میں قومی الیکشن میں سیاسی جماعتیں بلدیاتی الیکشن کے سبب نچلی سطح تک ووٹروں سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں ۔یہ بنیادی جمہوریت کے تصور اور مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 2021بلدیاتی ایکٹ کے بعد بھی حزب اختلاف جو اب حزب اقتدار ہے کو کچھ تحفظات بھی تھے بلدیاتی الیکشن کو دو مراحل میں کروانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا جو پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد دھرے کا دھرا رہ گیا ۔حلقہ بندیوں کی فہرستیں بھی تیار تھیں پہلے مرحلہ 28مئی ،میں خانیوال، سیالکوٹ، لیہ، وہاڑی ،حافظ آباد، جہلم، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اٹک، منڈی بہائو الدین اور دیگر اضلاع شامل تھے۔اس ایکٹ 2021میں پانچ بار ترامیم کی گئی تھیں اور ان کو جماعتی بنیادوں پر کروانے کا فیصلہ بھی ہو چکا تھا۔ 2013میں جب خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو اس وقت وہاں اصلاحات کر دی گئی تھیں وہاں اگلی مدت کے انتخابات بھی مکمل ہو چکے ہیں ،نئے نظام میں نیبر ہڈ اور ویلیج کونسلوں کو متعارف کرایا گیا ہے یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں کاونٹی سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے ،پی ٹی آئی کا اپنے دور میں بلدیاتی الیکشن نہ کروانا بھی ان کی ساکھ کی کمزوری ہے، اب دیکھیں بلدیاتی الیکشن کب ہوتے ہیں کیونکہ ملک میں عام انتخابات کی رٹ لگی ہوئی ہے اور ملک کو دیگر بے شمار مشکلات بھی درپیش ہیں۔ اب حکومت کو 2021 کے بلدیاتی نظام کےخاتمہ کے بعد اس پر دوبارہ کام کرنا ہے بلدیاتی ادارے سیاسی پارٹیوں کا سب سے بڑا سپورٹیو عنصر ہیں۔