خیبرپختونخو اکے جنگلات میں آتشزدگی ، بلین ٹری سونامی کا 488ہیکٹر رقبہ جل گیا

19 جون ، 2022

پشاور( ارشد عزیز ملک) خیبرپختونخوا کی سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ آتشزدگی کے واقعات نے صوبے میں بلین ٹری سونامی اور دس بلین ٹری سونامی پروجیکٹس کے تقریباً 488ہیکٹر علاقے کو متاثر کیا ہےجس کےباعث پودے مکمل طورپر جل گئے ہیں۔ صوبے کا مجموعی طورپر تقریباً 17095 ایکڑ رقبہ جنگل کی آگ سے تباہ ہو چکا ہے ۔یکم مئی 2022 سے 10جون تک خیبرپختونخوا کے جنگلات میں آگ لگنے کے 454 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ تاہم محکمہ جنگلات، ماحولیات اور جنگلی حیات نے صرف 283 واقعات کی تصدیق کی ہے۔سرحد کنزرویشن نیٹ ورک اور پشاور کلین ایئر الائنس کے کنوینر عادل ظریف نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں ماحولیاتی دہشت گردی کی تحقیقات ایک آزاد کمیشن کے ذریعے کرائی جائے۔پشاور ہائیکورٹ معاملے کا از خودنوٹس لے اور حکومت سےآگ کو روکنے میں ناکامی اور بروقت اقدامات نہ کرنے پر جواب طلب کرے ۔خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آگ نے ریجن I میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کا 15 ہیکٹر اور 10 بلین ٹری سونامی کا 95 ہیکٹر رقبہ متاثر کیا۔۔اسی طرح اگ سے ریجن 2 (ہزارہ) میں بلین ٹری سونامی کے 36 ہیکٹر اور 10 بلین ٹری سونامی کے 140 ہیکٹر رقبے کو نقصان پہنچا ہے۔تاہم، ہزارہ کے علاقے میں جنگل کی آگ سے 160 ہیکٹر کے انکلوژر بھی متاثر ہوئے۔اسی طرح ریجن 3 مالاکنڈ نسبتاً کم متاثر ہوا ہے اور صرف 41 ہیکٹر جنگلات کو نقصان پہنچا ہے۔ذرائع کے مطابق نقصانات زیادہ ہیں لیکن حکومتی اعدادوشمار ابتدائی رپورٹس پر مشتمل ہیں۔محکمہ جنگلات کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جنگ کو بتایا کہ نقصانات بہت زیادہ ہیں تاہم حکومتی اعداد و شمار ابتدائی رپورٹس پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ جنگل کی آگ میں متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں لیکن 90% واقعات میں انسانی عنصر کی شمولیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بعض اوقات محکمہ جنگلات کے اہلکار پودوں کی تعداد اور معیار کو چھپانے کے لئے بھی جنگل میںخود آگ لگادیتے ہیں ۔صوبے میں لینڈ اینڈ ٹمبر مافیا بھی سرگرم ہے اور اپنے مقاصد کے لیے جنگل کو آگ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سپارکو سے رجوع کرے اور ان سے آتشزدگی سے قبل اور بعد میں متاثرہ علاقوں کی قریبی سیٹلائٹ امیجز مانگے تاکہ پودوں کے معیار اور مقدار کا جائزہ لیا جا سکے۔ ۔بعض معتبر سرکاری ذرائع نےذستاویزات کے ساتھ تصدیق کی کہ صوبے میں یکم مئی سے 10جون تک آگ لگنےکے تقریباً 454 واقعات رپورٹ ہوئے۔ایبٹ آباد 148، بونیر 81، مانسہرہ 50، سوات 34، نوشہرہ 28، ہنگو 17، دیر لوئر 15، مہمند 15، ہری پور 13، شانگلہ 11، صوابی 09، بٹگرام 06، کرک 05، خیبر 04، کوہستان، 40 جنوبی کوہاٹ چترال لوئر 2، کرم 02، مردان 02، بنوں، ٹانک، اورکزئی، تورغر اور ڈی آئی خان کے جنگلات میں آگ لگنے کا ایک ایک واقعہ پیش ایا۔حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آگ لگنےکے 63% واقعات زمینی یا خشک گھاس میں ہوئے جبکہ 72% سے زیادہ متاثرہ علاقے مشترکہ نجی اراضی ہیں جن کی نجی اراضی پر شجر کاری کی گئی تھی ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، زمین سے زیادہ نمی کو بخارات بناتا ہے، مٹی کو خشک کر دیتا ہے اور پودوں کو آتش گیر بنا دیتا ہے۔ خشک سالی اور گرمی کے باعث جنگلات میں مزید آگ لگنے کے واقعات کا خدشہ ہے ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تفریحی مقاصد کے لیے جنگلوں میں آنے والے سیاح حادثاتی طور پر جنگل میں آگ لگنے کا سبب بنتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلین ٹری سونامی پروجیکٹ اور اب 10بلین ٹری پراجیکٹ کے تحت غیرموجود مالکان کی جائیدادپربڑے پیمانے پر پودے لگائے گئے ہیں، جنہیں مزارع اپنے مویشیوں کے لیے چراگاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس سے مقامی لوگوں کے درمیان ذاتی تنازعہ پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں آتشزدگی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔جب سیکرٹری جنگلات سے رابطہ کیا گیا تو محمد عابد مجید نے کہا کہ محکمہ نے سفارش کی ہے کہ اب سے تمام شجرکاری اور دیگر سرگرمیاں صرف ڈیزگنیٹڈحکومتی جنگلات میں کی جائیں گی تاکہ مقامی لوگوں کی زمینوں پر جنگلات اگانے کے نتیجے میں مزید تصادم سے بچا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ جنگلات اور محکمہ وائلڈ لائف کو مخصوص علاقوں کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا ہےلہذا نجی اور مشترکہ جنگلات کی حفاظت کے لئے مالکان کے ساتھ مشترکہ ایکشن پلان بنانے کی ضرورت ہے۔جنگل کی آگ بجھانے کے لیے بہترین تجربہ شدہ آپشن فکسڈ ونگ ہوائی جہاز ہے۔ اس لیے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ہوائی جہاز خریدا جائے۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات میںسائنسی انتظام کو فوری طور پر بحال کیا جائے تاکہ مالکان کچھ آمدنی حاصل کر سکیں تاکہ وہ جنگلات کو آگ سے بچانے میں تعاون کر یں۔جنگل کو صاف کرکے ٹوٹے اوربیمار درختوں کو بھی نکا لاجائے گا تاکہ آگ کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔ جنگل میں آگ لگنے کے واقعات کا جلد پتہ لگانے اور علاقائی عملے کے لیے آگ پر موثر کنٹرول کے لیے مواصلات کا ایک مضبوط نظام قائم کیا جا ئے گا۔سرحد کنزرویشن نیٹ ورک اور پشاور کلین ایئر الائنس کے کنوینر عادل ظریف نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں ماحولیاتی دہشت گردی کی تحقیقات ایک آزاد کمیشن کے ذریعے کرائی جائے۔پشاور ہائیکورٹ معاملے کا از خودنوٹس لے اور حکومت سے اس تاریخی آگ کو روکنے میں ناکامی اور بروقت اقدامات کرنے میں ناکافی کا جواب طلب کرے ۔موجودہ واقعات سے نظریں نہیں چرانی چاہیںبصورت دیگر، آنے والے سالوں میں ہمیں بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ انھوں نے کہا کہ خشک موسم، زمینی یا مقامی دشمنیوں، یا حادثاتی طور پر گھاس کی آگ کو مورد الزام ٹھہرانا سنگین ماحولیاتی اور انسانوں کے بنائے ہوئے چیلنجوں کے سامنے حکومت اور ریاست کی ذمہ داری کو جھنجوڑ رہا ہے۔"ماحولیاتی دہشت گردی" کا باعث بننے والے نادیدہ اور مجرمانہ ہاتھوں کو بے نقاب، گرفتار، سزا اور نسلوں کے لیے مثالیں بنانا اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا چاہیے۔ نازک ماحولیاتی نظام، ماحولیات اور کے پی کے لوگوں کے خلاف یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ صرف محکمانہ انکوائری کے لیے بچا ہوا ہے اور اسے افسر شاہی کے احاطہ میں دفن کیا جانا چاہیے۔