اسائلم کے منتظر 200 بچے ہوم آفس نے ٹھیکیدار کے زیر انتظام شمالی آئرلینڈ کے ہوٹلوں میں مقیم

21 جون ، 2022

لندن (پی اے) اسائلم کےمنتظرکم وبیش200 بچے ہوم آفس کے ٹھیکیدار Mears کے زیر انتظام شمالی آئرلینڈ کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔ مئی کے مہینے کے دوران اس ادارے کے زیر انتظام کم وبیش 1,200 افراد ہوٹلوں میں مقیم تھے۔ شمالی آئرلینڈ میں حقوق انسانی کی 2 تنظیموں نے اسائلم کے منتظر ان بچوں اور ان کی فیملیز کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، وہ انتہائی ظالمانہ، غیر ضروری ہے اور اس سے گریز کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل بلفاسٹ کے ایک جی پی نے بھی کہا تھا کہ ان ہوٹلوں میں رکھے گئے اسائلم سیکرز کو بنیادی ضرورتوں تک رسائی حاصل نہیں ہے اور ان کو بہت زیادہ سپورٹ کی ضرورت ہے لیکن اس کے برعکس ٹھیکیدار کمپنی NI Mears نے دعویٰ کیا ہے کہ ہوٹلوں میں مقیم لوگوں سے ملنے والا فیڈ بیک عام طورپر مثبت ہے۔ اسائلم سیکر ز کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ہوم آفس پورے برطانیہ اور شمالی آئرلینڈمیں ہنگامی طورپر ان کی رہائش کیلئے ہوٹلوں کو استعمال کررہی ہے۔ Mears کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کے ٹھیکیدار کی حیثیت سے ہمارا کام سروس استعمال کرنے والوں رہائش کے دوران سہولتیں فراہم کرنا ہے اور ہم مقامی اتھارٹیز، ہیلتھ اور ویلفیئر کی ٹیموں، این جی اوز اور دیگر پارٹنرزکے ساتھ مل کر مثبت طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ تاہم حقوق انسانی کی تنظیموں اور جی پیز کا کہنا ہے کہ اسائلم سیکرز کے علاج معالجے کی ضروریات پوری نہیں کی جا رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے بڑی تعداد میں اسائلم سیکرز کو رکھنے کیلئے ہوٹلوں کے استعمال پر بھی تنقید کی ہے۔ چلڈرن لا سینٹر اور سائوتھ ٹائرون امپاورمنٹ پروگرام نے بھی کہا ہے کہ اسائلم سیکر بچوں اور ان کی فیملی کو جس طرح رکھا گیا ہے، اس پر انھیں تشویش ہے۔ یورپ کی مشاورتی کمیٹی کی کونسل کو قومی اقلیتوں، سی ایل سی اور STEP کے منشور کے ڈھانچے کے تحت شکایت پیش کرتے ہوئے ان تنظیموں نے اسائل سیکرز کی حالت پر شدید تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ رہنے کی جگہ بہت چھوٹی ہے، فیملیز کو عام طورپر مختلف کمروں اور مختلف منزلوں پر سونا پڑتا ہے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی رہائش بہت ہی مختصر مدت کیلئے آخری چارے کے طورپر استعمال کی جاتی ہے لیکن بچوں اور فیملیز کو 4-6 سے مہینوں سے ان میں رکھا گیا ہے، جس سے ان کی صحت پر تندرستی اور ماحول سے متعلق حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہورہی ہے۔ CLC اورSTEP کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات مختلف تنظیموں اور ہوٹل میں مقیم بعض لوگوں سے حاصل کی گئی تفصیلات پر مبنی ہیں۔ شمالی آئرلینڈ کے ہوٹلوں میں جن بچوں کو رکھا گیا ہے، ان کی اکثریت غیر یورپی اور غیر سفید فام ہے۔ ان میں کرد، اردن، ایران، شام، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور لیبیا سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں، ان لوگوں کو یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں کے مقابلے میں بہت کم سہولتیں حاصل ہیں۔ CLC اور STEP کی پیش کردہ رپورٹ سے بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جن میں فیملیز کو کھانے کی فراہمی، بچوں کو تعلیم کی عدم فراہمی اور بچوں کے کھیلنے کی جگہ کی عدم دستیابی شامل ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فیملیز نے بچوں کیلئے نیپیز فراہم نہ کئے جانے اور ایک یا 2 کمروں میں 8-8 افراد کو رکھنے کی بھی شکایت کی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سی ایجنسیوں نے شکایت کی ہے کہ ہوٹل میں فیملیز کیلئے ماحول بہت جابرانہ ہے۔ CLC اور STEP نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ فیملیز کو 8 پونڈ فی ہفتہ کی مالی امداد کی فراہمی میں بھی تاخیر کی جاتی ہے جبکہ ان کے پاس آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اور انھیں کہیں کام کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ پی آر آر، کانوائے ایجوکیشن سینٹربلفاسٹ، برنارڈو شمالی آئرلینڈ اور جنوبی بلفاسٹ کے شیور اسٹارٹ جیسے اداروں نے CLC اور STEP کی شکایات کی توثیق کی ہے لیکن NI, Mears نے بی بی سی کے پروگرام میں CLC اور STEP کی شکایات کی تردید کی ہے۔ تاہم اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 200 بچوں سمیت کم وبیش1,200 اسائلم سیکرز کو شمالی آئرلینڈ عبوری رہائش کے انتظام کے تحت رکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ اسائلم سیکرز کی تعداد روزانہ تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لئے ہم بچوں کا دودھ اور بچوں کی خوراک اور بہت سی دیگر سہولتیں فراہم نہیں کرسکتے جبکہ بعض سہولتیں طلب کرنے پر فراہم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہوٹل میں رکھی جانے والی فیملیز کو مناسب سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں اورانھیں ڈائننگ روم، مل بیٹھنے کی جگہ اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں، ہم سروس سے استفادہ کرنے والوں اور عملے سے ہفتہ وار بنیاد پر فیڈ بیک حاصل کرتے ہیں اور جہاں ضروری محسوس ہوتا ہے، تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں اور سروس کو بہتر بنا دیا جاتا ہے۔