عالمی کساد بازاری اور پاکستان

اداریہ
21 جون ، 2022

پاکستان میں غیرمعمولی شرح سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان حال عوام سراپا احتجاج ہیں اور اس پر قابو پانے کیلئے جلسے جلوسوں اور مظاہروں کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں، خود حکومت کو بھی اس امر کا شدت سے احساس ہے اور اپنی صوابدید کے مطابق عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے تمام ممکن اقدامات کررہی ہے لیکن معاملہ اتنا آسان نہیں کہ کسی فوری اور ہنگامی اقدام کے ذریعے حل ہوجائے کیونکہ یہ صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور اس کا بنیادی تعلق بڑھتی ہوئی عالمی کساد بازاری سے ہے جس کے شکنجے میں اس وقت سب سے بڑی معاشی قوت امریکہ سمیت دنیا کے تمام امیروغریب ممالک جکڑے ہوئے ہیں، اور اس سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔ یہ سنگین صورتحال نتیجہ ہےکہ کورونا وائرس کی عالمگیر وباکے مابعد اثرات اور خاص طور پر روس اور یوکرین کی خونی جنگ کا جس میں تمام بڑی طاقتیں ملوث ہوگئی ہیں۔ امریکہ کی زیرسرپرستی نیٹو ممالک یوکرین کی جدید ہتھیاروں سمیت بھرپورمادّی مدد کررہے ہیں۔ ان ممالک نے روس پر مختلف قسم کی پابندیاں لگادی ہیں۔ امریکہ کے زیر اثر ممالک اب روس سے تیل اور گیس سمیت کئی اشیاء درآمد نہیں کرسکتے۔ اس سے توانائی اور خوراک کا عالمی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے نیٹو کے سربراہ اسٹولن برگ نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین جنگ کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ جنگ برسوں جاری رہے گی۔ اقوام متحدہ نے تو اس سے بھی زیادہ بڑا انتباہ جاری کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ یوکرین کی جنگ جاری رہتی ہے تو خوراک اور توانائی کے بڑھتے نرخ خوفناک بحران کی شکل اختیار کرلیں گے اور ایسا قحط پڑے گا کہ دنیا جہنم بن جائے گی۔تمام امیر ممالک نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ روس یوکرین جنگ ختم کرنے کرانے کیلئے کوئی بیچ کا راستہ اختیار کرے اور آنے والے وقت میں دنیا کو معاشی اور امن وامان کی تباہی سے بچائے۔ روس کی اقتصادی اور عسکری ناکہ بندی اور اسے شکست دلانے کی تدابیر کی جارہی ہیں۔ امریکہ اس میں پیش پیش ہے۔ برطانیہ کے آرمی چیف نے اپنی افواج کو روس پر حملے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیدیا ہے۔ جرمنی نے روسی گیس پر انحصار کی بجائے کوئلے کا استعمال شروع کردیا ہے۔ دوسرے ممالک بھی اسی طرح کے اقدامات کرنےپر مجبور ہیں۔ اس ضمن میں مغربی ممالک افراتفری کا شکار نظر آرہے ہیں۔ ایران میں مہنگائی کے خلاف ہنگامہ برپا ہے۔ سری لنکا دیوالیہ ہوچکا ہے، ایسے میں پاکستان کی حکومت اور عوام کو معاملے کی نزاکت کا پوری طرح احساس کرنا چاہئے۔ پیٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے سے خوراک اور روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء اور ضروریات کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگیا ہے۔ فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے کلیئر تو کیا ہے مگر نکالا نہیں اس لئے غیرملکی سرمایہ کاری اور دیگر معاشی ثمرات یہاں پہنچنے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو 6 ارب ڈالر دینے کا جو پیکج منظور کیا تھا سابق حکومت نے اس کی شرائط پر عمل نہیں کیا اس کی وجہ سے اس نے قرضے کی فراہمی روک دی ہے۔ اس مسئلہ پر ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ایسے میں حکومت اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لئے جو اقدامات کررہی ہے ان کے منفی اثرات غریب اور متوسط طبقوں پر پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بے چینی پھیلی رہی ہے۔ اس نازک صورتحال میں تمام سیاسی پارٹیوں کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے ملک اور قوم کے بارے میں سوچنا چاہئے اور مل جل کر ایسے اقدامات تجویز کرنے چاہئیں جن سے غریب کو دو وقت کی روٹی مل سکے اور ملک ترقی خوشحالی اور استحکام کی راہ پر چل پڑے۔