زیادتی کے واقعات: پنجاب میں ایمرجنسی

اداریہ
21 جون ، 2022
گزشتہ دو برس کے دوران ملک میں ہر روز اوسطاً آٹھ بچوں کے ساتھ مختلف جرائم کے واقعات سامنے آئے ہیں، ان میں جنسی زیادتی کے کیسوں کی شرح 17 فیصد ہے اور اس تعداد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جن پر سماجی مصلحتوں کے باعث پردہ ڈال دیا جاتا ہے مزید برآں خواتین کیساتھ زیادتی کے واقعات کے خلاف گذشتہ برس پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی گئی ایک قرارداد میں حوالہ دیا گیا تھا کہ صرف صوبائی دارالحکومت میں آٹھ ماہ کے دوران درج ہونے والے 369 کیسوں میں سے تاحال زیادتی سے متاثرہ 42خواتین کا میڈیکل ٹیسٹ نہیں کروایا گیا جبکہ ناقص تفتیش کی وجہ سے 91کیسوں کے ڈی این اے ٹیسٹوں میں تاخیر ہوئی۔ یہ شرمناک مجموعی صورتحال من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں اس حوالے سے ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔معاشرتی جرائم کے خلاف گزشتہ برسوں کے دوران کی جانے والی کوششوں کے مطلوبہ نتائج سامنے نہ آنے کے تناظر میں یہ حکومت پنجاب کا بہت اہم اور ناگزیر اقدام ہے جسے ایک چیلنج سمجھ کر تمام صوبائی حکومتوں کو قبول کرنا چاہئے نیز ضروری ہے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے رجحانات پر نظر رکھی جائےجن میں انٹرنیٹ کے غلط استعمال اورسائبر کرائم کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں ان کے لئے سزائیں مقرر ہیں لیکن تیزی سے بڑھتے ان جرائم پر بہت کم کارروائی ہوئی ہے۔ جرائم پیشہ افراد بچوں اور خواتین سے زیادتی کی وڈیوز بناکر انھیں بلیک میل کرتے ہیں۔ ملک میں زینب الرٹ اور ریپ کے خلاف قوانین موجود ہیں تاہم صحیح خطوط پر تفتیش ، مجرموں کو قرار واقعی سزائیں اور ان پر مؤثر عمل درآمد ہی مسئلے کا دیرپا حل ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998