اتحاد و ایمان و تنظیم کی تلاش

ڈاکٹر مجاہد منصوری
21 جون ، 2022
آئو پاکستانیو! جو بھی ہو جہاں بھی ہو، مان جائیں کہ آج بدقسمت ’’پاکستان‘‘ (اگر 22کروڑ عوام کا نام یہ ہی ہے) اپنی 75سالہ قومی زندگی کی بدترین حالت میں ہے۔ اسے جو بھی نام دے لیں آئینی وسیاسی اور سنگین اقتصادی بحران یا عوام کی بے بسی یا حکام کی بے حسی یا اسٹیٹس کو (نظام بد) کا اذیت ناک تسلط۔ متاثر اور بیمارہم سب ہی ہو گئے ، کہیں کوئی چراغ جل تو رہا ہےلیکن کوئی امیدبر نہیں آتی۔ جو آتی ہے اس پر بھی نحوست کے گہرے سائے ہیں، پھر بھی گھپ اندھیرا نہیں۔ سو جمود تشویشناک اور اسے قائم دائم رکھنے کے حربے و حرکات پُرخطر ہی معلوم نہیں دے رہیں، سر چڑھ کر اپنا مہلک ہونا ثابت کر رہی ہیں۔ گلاب کی بارش اور وکٹری کی دکھائی علامتوں سے چیلنج یہ کہ مقابل مزاحمت آمرانہ حربوں میں جتنی اور جیسی ہے اس کو ہموار راہ ملنا اور اس کی اپنی کوئی شکل وصورت بننا بھی تو محال معلوم دے رہا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ وہ مشکل ہی نہیں جو آسان نہ ہو جائے، ویسے بھی فرمان قائد ہے کہ ’’مسلمان مشکل میں گھبرایا نہیں کرتا۔‘‘قارئین کرام! 14اگست تو ابھی دور ہے اور حضرت قائداعظم اور مرشد اقبال کا ایام پیدائش و وفات بھی۔ نہ جانے پھر بھی دل و دماغ اور طبیعت برصغیر کے ان جدید تاریخ سازوں اور دیداوروں کی تاریخ سازی کی طرف مائل ہوتی جا رہی ہے۔ تاریخ اپنی طرف بلا رہی ہے۔ اللہ کا یہ ہی بڑا کرم اور شہدائے قیام و دفاع پاکستان کے لہو کی برکت ہے کہ شدید ابتر قومی ملکی صورتحال نے اس عمر میں بھی بڑا سہارا دیا ہوا ہے۔ ناچیز عمر رسیدہ کو ہی نہیں لاکھوں کروڑوں نحیف ونہتے اہل وطن کو وگرنہ زندگی بھر پیدا ہوتی، پلتی بڑھتی اور اب پوری ہوئے بغیر ڈھلتی خواہشات کا تمام سامان موجود ہونے کے باوجود کفران نعمت کا غلبہ ہی نہیں بلکہ اس خود ساختہ بدنصیبی نے جیسے ہمیں اور ہمارا سب کچھ جکڑ لیا ہے۔ جو چراغِ غنیمت جل رہا ہے اس نے اتنا گھپ اندھیرا پھاڑ دیا ہے کہ ملک تمام تر مکروہ عزائم اور شیطانی رویوں کے باوجود اندھیر نگری نہیں بن پا رہا۔ امید کے جلتے چراغ سے اتنے چراغ جل گئے ہیں کہ ظلم و استحصال اور ملک پر مسلط بدترین سماجی ناانصافی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا اپنی انتہا پر پہنچ کر چھٹ تو رہا ہے۔
ہماری پُرآشوب سیاسی تاریخ کے اس سب سے بڑے سیاسی چیلنج میں حکومت گنوائے سابق وزیر اعظم کی جانب سے ایک دعویٰ قوم میں تقسیم کی صورت سامنے آیا ہے۔ قوم کے ایک بڑے طبقے نے اس پر لبیک تو کہہ دیا ہے ۔ مقابل دوسرا دعویٰ روایتی سیاسی جماعتوں کے حکمراںاتحاد نے کیا ہے کہ ملکی جمہوری قوتیں متحد ہو کر آئین بچا رہی ہیں اور ان کا اتحاد اور برپا کی گئی متحدہ حکومت اکھاڑی گئی مہنگائی سے عوام کی زندگی اجیرن کر دینے والی سلیکٹڈ حکومت کی جگہ اصلی حکومت ان ہی کی ہے۔ ان کا دعویٰ اور سیاسی ابلاغ کا واضح تاثر ہے کہ وہ ملکی مقتدر طاقت کی اشیر باد سے لیکن آئینی راہ سے ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکھاڑی گئی حکومت میں مہنگائی سے عوام سخت پریشان تھے تو مہنگائی پر اسے ’’آئینی کٹہرے‘‘ میں لانے والے متحدہ جمہوری اتحاد کی ڈگمگاتی حکومت نے آتے ہی عوام پر مہنگائی کے ہی پے در پے وار کرکے ان کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ لوگ حقیقتاً اشیائے خورو نوش اور آمد و رفت کے ناقابل برداشت نرخوں سے موجود معیار زندگی کے نصف میں چلے گئے، وہ بھی صرف دو ماہ میں۔ حکومت اور اس کے ہمنوا ملک میں احتساب کے عمل اور عوام دوست قانون سازی سے بھی دستبردار ہوگئے۔ اس حکومت نے اقتدار میں آتے ہی جس طرح قانون سازی کی اور جتنی اور جس ڈھٹائی سے کی اس میں ان کے اقتدار میں رہنے تک اب چند ماہ کیلئے احتساب کے چیک سے فری جمہوریت پروان چڑھے گی۔ پہلا احتسابی اتمام حجت ،جس طرح پارلیمانی کارروائی سے ختم کیا گیا اس سے ان کے احتساب دشمن ہونے کا کوئی شبہ رہ ہی نہیں گیا۔ لیکن بڑی مکاری کے ساتھ اب لنگڑی حکومت نے یہ پوزیشن لے لی ہے کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کوئی حکومت بن ہی نہیں سکتی ۔ گویا اپنے بھی سلیکٹڈ ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔ جبکہ ہارس ٹریڈنگ اور سندھ ہائوس اور ہوٹلوں میں ڈیل و تحویل کے تماشے نے حکومت سازی میں جو کردار ادا کیا وہ اب مکمل بے نقاب اور عدالتی فیصلے کے مطابق غیر آئینی قرار پایا۔ پھر ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ بیرونی سازش سے اقتدار میں آنے کا الزام بڑا بھاری اور قومی سیاست کا سلگتا سوال بنا ہوا جو بجھائے نہیں بجھ رہا۔ آئندہ انتخابی قوانین کے لئے جو قانون سازی کی گئی وہ ایک بڑا سیاسی تنازعہ الگ ہے جس پر سابقہ حکومت اور اس کے اوورسیز ہمنوا ووٹر سیخ پا ہیں۔حکومت والے بھی بھاری بھرکم ملزم ہیں۔ درجنی جماعتی اتحاد نے اسے دہشت گردی، فساد عامہ اور ملکی اقتصادیات تباہ کرنے کا ملزم بنا کر تھانہ کچہری کے چکروں میں تو ڈال دیا ہے۔ حتیٰ کہ یہ بلاسیفمی قوانین کی زد میں بھی آئے ہوئے ہیں۔
بڑا خطرہ مول لے کر پاکستانی بحیثیت قوم ایک بڑے باہمی ابلاغی تنازعے (intra communication conflict) میں چلی گئی ہے۔ اس سے بہت کچھ بے نقاب ہوچکا ہے۔ بہت تلخ حقائق سامنے آنے سے قومی اداروں کے جو جائزے دانستہ یا نادانستہ ہوگئے یا ہو رہے ہیں، انہوں نے ملک کو انتشار اور اصلاح کے دو راہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ بہت توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ متذکرہ داخلی ابلاغی محاذ آرائی جو کچھ اچھا برا قوم و ملک کو دے رہی ہے وہ مول لیا بڑا خطرہ ہے۔ اس کے مہلک پہلو کو کم کرنے کے لئے کسی قابل قبول ثالثی فورم اور پوری قوم خصوصاً جمہوری قوتوں کے اتحاد کے دعویداروں کے لئے کوئی ایجنڈا صدق دل سے تیار کرنے اور اس ابلاغی محاذ آرائی میں کوئی معنی خیز ’’مداخلت‘‘ کسی بھی طرف سے ہونے کی گنجائش ہے کہ جس پر مکمل ایمانداری، تنظیم اور قومی اتحادی جذبے سے مذاکرات کی صورت بن سکے۔ ہر دو جانب سے اس کی کیا شرائط اور ان کا مشترکہ اعتماد کہاں اور کیسے مل سکتا ہے؟ مل گیا تو اس انٹراکمیونیکیشن کنفلیکٹ سے قوم کو متحد و منظم کرنے، جمہوریت کی بقا، انسداد بیرونی مداخلت اور سیاسی، آئینی و اقتصادی بحران کا مشترکہ اور پروپیپل قانون سازی کے کم از کم اور لازمی رخ کے تعین کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس محدود لیکن حساس ایجنڈے پر آج پاکستان کو شدت سے بنیادی درجے کے ایمان، اتحاد اور تنظیم کی تلاش ہے۔ پاکستانی سول سوسائٹی میں اتنی جان ابھی ہے کہ توجہ دی جائے تو فقط تشویش اور بلیم گیم سے نکل کر ایسے سیکشنز آف سوسائٹی اور افراد کی تلاش کی جائے، کیونکہ بحران میں پوٹینشلررکھنے والے شہریوں کے کودنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ زمین سے لگاہوا ہے۔ جو ہے وہ پارٹیوں کے لئے تو ہے، قوم و ملک کے خاطر فقدان ہے۔