نیب قانون، 85 فیصد ترامیم وہی جو PTI حکومت نے کیں، رانا ثناء

21 جون ، 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ راناثناء اللہ نے کہاہے کہ نیب قانون میں 85فیصد ترامیم وہی ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت نے کی تھیں، جو مہنگائی ہونی تھی وہ ہوچکی اب آنے والا ہر دن بہتر ہوگا،عمران خان کو اتوار کے مظاہروں کے بعد شرم آنی چاہئے تھی،میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ حکومت کیلئے معاشی اور سیاسی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے نیب قوانین میں ترامیم کا جائزہ لینے کے ریمارکس کا خیر مقدم کرتا ہوں،نیب قانون میں 85فیصد ترامیم وہی ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت نے کی تھیں، تحریک انصاف انہیں چیلنج کرے میں دعوے سے کہتا ہوں تینوں ترامیم برقرار رہیں گی،مونس الٰہی کیخلاف بہت واضح کیس ہے، مونس الٰہی کے مقدمہ میں ہم نے کوئی چیز اپنے پاس سے نہیں ڈالی،لانگ مارچ کی دھمکی اور دھونس ختم ہوچکی ہے، عمران خان کا فتنہ و فساد پھیلانے کا پروگرام پوری طاقت سے روکیں گے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان نے ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے، جھوٹے مقدمات کیلئے بدنام زمانہ شہزاد اکبر اور بابر اعوان کو کام پر لگایا گیا، اپنی بے گناہی ثابت کر کے ان مقدمات کو ختم کرنا ہمارا بنیادی حق ہے، اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کی، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی بنیاد پر نیب قانون میں ترامیم کی گئیں کیا انہیں ختم کیا جاسکتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے نیب قوانین میں ترامیم کا جائزہ لینے کے ریمارکس کا خیر مقدم کرتا ہوں، سپریم کورٹ نیب قوانین میں ہماری ترامیم کا جیوڈیشل ریویو لے، نیب قانون میں 85فیصد ترامیم وہی ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت نے کی تھیں، عمران خان کا آرڈیننس اب 85فیصد قانون کی صورت میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا ہے، تحریک انصاف ان ترامیم کو چیلنج کرے میں دعوے سے کہتا ہوں تینوں ترامیم برقرار رہیں گی،ان ترامیم کے بعد بارِ ثبوت پراسیکیوشن کے اوپر ہوگا، اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی بارِ ثبوت پراسیکیوشن پر ڈالنے کی سفارش کی تھی۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ نیب کا قانون کالا قانون ہے، ضمانت کا اختیار ٹرائل کورٹ کے پاس ہونا چاہئے، نیب لوگوں کو 90دن کیلئے پکڑ کر ڈال دیتی تھی اور تفتیش 9دن بھی نہیں کرتی تھی،کیا پی ٹی آئی 25مئی کو مسلح جتھے کے ساتھ اسلام آباد پر حملے کیلئے نہیں آرہی تھی، مونس الٰہی کیخلاف تمام ثبوت موجود ہیں، مونس الٰہی کو سوالات دیئے گئے ہیں وکلاء سے مشاورت کر کے جواب دیں، مونس الٰہی کیخلاف کیس میرٹ پر نہیں ہوا تو نہیں بنے گا، عمران خان کو اتوار کے مظاہروں کے بعد شرم آنی چاہئے تھی۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور سلمان شہباز کے خلاف شوگرکمیشن کی رپورٹ مختلف ہے، مونس الٰہی کیخلاف بہت واضح کیس ہے، نائب قاصد محمد نواز بھٹی اور طالب علم مظہر حسین نے رحیم یار خان شوگر مل 72کروڑ روپے کی خریدی، مونس الٰہی ثابت کریں کہ شوگر مل انہی دونوں کی ہے، اگر مونس الٰہی مانتے ہیں شوگرمل ان کی ہے تو منی ٹریل پیش کریں، مونس الٰہی کے مقدمہ میں ہم نے کوئی چیز اپنے پاس سے نہیں ڈالی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف کے ساتھ جن شرائط پر معاہدہ کیا وہ ملک کے ساتھ ظلم ہے، آئی ایم ایف معاہدہ بحال نہیں کروایا تو معیشت آگے نہیں چل سکے گی، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں کڑوی گولی نگلنا پڑرہی ہے ،آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے کے بعد کون سی مہنگائی ہوگی، جو مہنگائی ہونی تھی وہ ہوچکی اب آنے والا ہر دن بہتر ہوگا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان ہمارے خلاف دو نمبر قانون سازی کر انا چاہ رہے تھے، ہمیں عمران خان کا کوئی خوف نہیں ہے، لانگ مارچ کی دھمکی اور دھونس ختم ہوچکی ہے، عمران خان کا فتنہ و فساد پھیلانے کا پروگرام پوری طاقت سے روکیں گے، وزیراعظم شہباز شریف کو وقت ملے گا تو ملک کو بحران سے نکال لیں گے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم خرم دستگیر نے جو بات کی اسے کس تبدیلی سے جوڑا ہے۔ سابق اسپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ نئے نیب قانون میں زیادہ تر ترامیم وہی ہیں جو عمران حکومت میں آرڈیننس کے ذریعہ لاگو کی گئی تھیں، نیب کے دائرہ اختیار سے متعلق سیکشن بغیر کسی ترمیم کے وہی لاگو کردیا گیا ہے جو پی ٹی آئی دور میں تھا، اب ٹیکس کے مقدمات، ضابطہ کار کی غلطی کے تحت ہونے والے مقدمات اور وفاقی اکنامک اور ریگولیٹریز باڈیز کے تحت ہونے والے معاملات کو نیب کے دائرہ کار سے نکالا گیا ہے تاکہ نیب اپنے اصل دائرہ اختیار میں کام کرے، یہی شقیں پی ٹی آئی کے دونوں آرڈیننس میں بھی تھی جو واپس لائی گئی ہے۔ عمران شفیق کا کہنا تھا کہ حیران کن طور پر صدر پاکستان نے آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق شق میں ترمیم پر اعتراض نہیں کیا، ترمیم کے بعد اب نیب کو ثابت کرنا ہے کہ کسی کے آمدنی سے زائد اثاثے بے ایمانی اور کرپشن کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ حکومت کیلئے معاشی اور سیاسی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، معاشی غیریقینی میں اضافہ ہورہا ہے ساتھ سیاسی بے یقینی بھی بڑھ رہی ہے، پٹرول کی قیمتیں بڑھانے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلا ن کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوا ہے ، اس پوری صورتحال میں عمران خان مہنگائی کیخلاف بیانیہ بنارہے ہیں، وہ یہ بیانیہ بھی بنارہے ہیں کہ ن لیگ اور دیگر اتحادی حکومت میں اپنے خلاف کیسز ختم کرنے کیلئے آئے تھے، عمران خان اور ساتھی وفاقی وزیر خرم دستگیر خان کے بیان کا سہارا لے کر حکومت پر سخت تنقید کررہے ہیں، خرم دستگیر نے دو دن پہلے کہا تھا کہ ہم حکومت میں اس لیے آئے کیونکہ اس سال کے آخر میں اہم تبدیلی آنی تھی جس کے نتیجے میں عمران خان نے ہم پر تاحیات پابندی لگاکر اگلے پندرہ سال تک ملک پر براجمان رہنا تھا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ نیب قانون میں بیشتر ترامیم وہی ہیں جو پہلے تحریک انصاف کرچکی ہے جبکہ کچھ معاملات میں مزید بہتری لائی گئی ہے، تحریک انصاف کہہ چکی ہے کہ وہ حکومت کی نئی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی، صدر پاکستان عارف علوی نے ان ترامیم پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے واپس بھجوادیا، سوال اٹھ رہا ہے کہ ایک طرف صدر عارف علوی نے تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پارلیمان سے نیب قوانین میں ترامیم کرنے کے بجائے آرڈیننس کے ذریعہ قوانین نافذ کیے مگر اب جب پارلیمنٹ ترامیم لے کر آرہی ہے تو صدر ان ترامیم کو احتساب کا عمل ختم کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہورہا ہے نہ ہی چین سے وعدے کے مطابق 2.3ارب ڈالرز اب تک پاکستان کو ملے ہیں اور نہ ہی بجٹ اپنی موجودہ صورت میں منظور ہوتا نظر آرہا ہے، اس صورتحال میں مارکیٹس کا حکومتی دعوؤں اور وعدوں پر اعتماد مسلسل کم ہورہا ہے، روپیہ آج تاریخ میں پہلی دفعہ ڈالر کے مقابلہ میں 210روپے سے بھی نیچے گرگیا، ملک کے پاس ڈالرز نہیں ہیں اور اسٹیٹ بینک کے ذرائع کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 9ارب ڈالرز سے بھی نیچے گرچکے ہیں، خرم حسین اور اریبہ شاہد کی خبر کے مطابق باخبر بینکنگ ذرائع نے بتایا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے ایک ماہ پہلے ہی مارکیٹ میں ڈالرز بیچنا چھوڑ دیئے تھے ، کچھ اشیاء کی درآمدات پر پابندی کے بعد ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے ڈالرز تیزی سے باہر نہ جائیں، اس میں ایل سیز کے کھلنے میں انتظامی تاخیر جیسے اقدامات بھی شامل ہیں، خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک کمرشل بینکس کو اپنے کسٹمرز کو ڈالرز بیچنے کی تو اجازت دے رہا ہے مگر انٹربینک سے ڈالر واپس خریدنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے جس کی وجہ سے کمرشل بینکوں کو ایکسچینج ریٹ کی مد میں نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، یہ بہت نازک صورتحال ہے جس میں انٹربینک میں ڈالرز کی لیکویڈیٹی نہیں ہے، جیو نیوز کے مطابق امپورٹرز کو اب ایک لاکھ ڈالرز تک کی ادائیگیوں کیلئے بھی ایک دن پہلے اطلاع دینا ہوگی۔