اب جوڈیشل ایکٹوازم کا دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا، چیف جسٹس

23 جون ، 2022

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں )سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب جوڈیشل ایکٹوازم کا دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہوگا،ایسا حکم دیں گے ٹرائل بھی نہ رکے اور توہین عدالت کرنیوالوں کیخلاف کاروائی بھی چلے،سپریم کورٹ نے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوٹ ( ای او بی آئی )کیس میں توہین عدالت کرنے والے ملزمان کی تفصیلات طلب کر لیں ۔ عدالت عظمی نے نیب سے ملزمان کی فہرست اور ٹرائل کی تفصیلات بھی طلب کر لیں ۔ بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ای او بی آئی غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کیس میں توہین عدالت کے معاملہ کی سماعت کی ۔ دوران سماعت جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو دی گئی رپورٹ میں ملزمان کی مکمل فہرست شامل نہیں۔ اس دوران جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ نیب ریفرنس کی کیا صورتحال ہے،تقرریاں تو 2009 ءسے شروع ہوئی تھیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے جنوری 2011 میں ای او بی آئی میں بھرتیاں روکنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ستمبر 2011ء سے مئی 2012 ء کے درمیان ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئیں، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جن افراد نے بھرتیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ان کا نام نیب رپورٹ میں موجود ہے،نیب رپورٹ میں سید خورشید شاہ کا نام بھی اثر انداز ہونے والے افراد میں شامل ہے۔ اس دوران وکیل اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ خورشید شاہ کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں، پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ 2011 ءمیں وزیر بنے، وہ اس وقت وزیر نہیں تھے جب یہ بھرتیاں ہوئیں، ان کے سر پر توہین عدالت کی تلوار کیوں لٹک رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم کے برعکس تقرریاں تو ہوئی ہیں،دیکھنا ہے کس نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی،سب کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے صرف ذمہ داروں کے خلاف ہی کاروائی کرنا چاہتے ہیں،نیب تفصیلی طور پر رپورٹ دے کہ کس ملزم کا کیا کردار ہے، ہم صرف نیب سے ذمہ داران کی رپورٹ طلب کر رہے ہیں ، نیب کو تفصیلات جمع کرانے کا آخری موقع دے رہے ہیں،ایسا حکم دیں گے کہ ٹرائل بھی نہ رکے اور توہین عدالت کرنے والوں کے خلاف کاروائی بھی چلے،جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے،ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا۔ عدالت عظمی نے توہین عدالت کرنے والے ملزمان کی تفصیلات طلب کر لیں ۔ سپریم کورٹ نے نیب سے ملزمان کی فہرست اور ٹرائل کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔