بلوچستان کا روایتی بجٹ

اداریہ
23 جون ، 2022

ملک کے سب سے بڑے اور قدرتی وسائل سے مالامال صوبے بلوچستان کا آئندہ سال کے لئے روایتی بجٹ پیش کردیا گیا ہے جس میں خاطرخواہ مالی وسائل کی عدم دستیابی اور وفاقی حکومت کی جانب سے اپنے حصے کے پورے فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے انفراسٹرکچر کی بہتری سمیت کوئی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ شروع کرنے کی نوید نہیں ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے 612 ارب 70 کروڑ روپے کا خسارے کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 191.5 ارب مختص کرنے کا اعلان کیا۔ بجٹ میں 72.8ارب روپے خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں 15 فیصد اضافہ، کم سے کم اجرت بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے اور 2852 نئی اسامیاں تخلیق کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے معدنی وسائل کی ترقی پر 74 کروڑ روپے خرچ کرنے کی بات کی جوبہت معمولی رقم ہے۔ مجموعی طور پر 3470 نئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 59 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے مالی بے قاعدگیوں کو روکنے کے لئے بلوچستان فنانس مینجمنٹ ایکٹ کے نفاذ کا ذکر کیا جو ایک اچھا اقدام ہے جس کی دوسرے صوبوں کو بھی تقلید کرنی چاہیے ۔ سی پیک منصوبہ بلوچستان کی ترقی کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ صوبے میں اس کے تین کوریڈور ہیں لیکن ایک بھی صنعتی زون نہیں ہے۔نہ ہی پاک چین دوستی کے اس عظیم منصوبے کا اب تک ایک بھی پراجیکٹ مکمل ہوا ہے۔ بلوچستان اکنامک فورم کے صدر سردار شوکت عزیز پوپلزئی نے درست کہا کہ صوبہ وفاق کی وصولیوں کا محتاج ہے۔ اس کی اپنی آمدنی بہت کم ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ پاکستان اس وقت جس اقتصادی بحران کا شکار ہے صرف بلوچستان کے معدنی وسائل سے اس پر قابوپایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک طویل عمل ہے مگر اس کے بغیر نہ صوبے کی پسماندگی، غربت اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی دور ہوگی نہ پاکستان مستحکم اور خوشحال ہوگا ۔