Capture کرنے کی وحشت

بلال الرشید
23 جون ، 2022
آج جس زمانے میں ہم زندگی گزار رہے ہیں ،بجا طور پر اسے لمحات captureکرنے کا زمانہ کہا جا سکتاہے ۔ آج آپ نے اپنی زندگی کا ہر پر لطف لمحہ کیمرے میں محفوظ کرنا ہے ۔پھر دنیا کے سامنے اپنی یہ خوشی ثابت کرنی ہے ۔ پہلے کیمرہ خریدنا پڑتا تھا ۔ فلم دھلوانا ہوتی تھی ۔ آپ صرف چھتیس تصویریں لے سکتے تھے۔تصویر ایڈیٹ نہیں ہوتی تھی ۔ یہ تصویر ایک لمحے میں سارے دوستوں اور رشتے داروں کودکھا ئی نہیں جا سکتی تھی ۔ کیمرے والے موبائل فون ،انٹرنیٹ، واٹس ایپ اور فیس بک نے صورتِ حال بدل دی ہے ۔ آدمی لمحہ بہ لمحہ سیلفی اپ لوڈ کرتا پھر رہا ہے ۔اس کوشش میں کئی اموات بھی ہوئیں ۔ اس کے باوجود دوسروں کو یہ دکھانا کہ میں بے حد خوبصورت ، طرح دار،بے باک اور بذلہ سنج ہوں ، نظریاتی و سیاسی مخالفین کی گوشمالی کر سکتاہوں ، یہ اس قدر لذت آمیز ہے کہ آدمی ایک نشئی کی طرح اس کام پہ لگا رہتاہے ۔ زندگی کے باقی سب کام آٹو پائلٹ پہ لگے ہیں۔ ہم یہ سب کیوں کر رہے ہیں ؟ جواب : لوگوں کو دکھانے کے لیے ؛حالانکہ لوگوں کی ایک عظیم اکثریت کو آپ کی تصاویر سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں کہ وہ تو آپ کے لگتے ہی کچھ نہیں ۔ اس کے باوجود ان کا ایک کمنٹ اور ایک لائیک آپ کو سرشار کر سکتاہے ۔آپ اپنے بچپن کی تصاویر اجنبیوں کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپ اپنا ایک ایک دکھ اور ایک ایک خوشی لوگوں کو بتا رہے ہیں اورروزانہ کی بنیاد پر بڑی ذمہ داری کے ساتھ ۔ آپ اپنے ماں باپ سے محبت رکھتے ہیں ،بہت خوب لیکن دنیا کو اس کا یقین دلانے کی وجہ ؟ آپ اپنی ہر نیکی دنیا کے سامنے پیش کر نا چاہتے ہیں ۔ہم لوگ اب سوشل میڈیا ئی پسِ منظر میں زندگی گزار رہے ہیں ۔لاشعور میں ہر وقت دنیا کے سامنے کچھ پیش کرنے کی خواہش تڑپتی رہتی ہے ۔ جو لوگ جانتے تھے ،غور کرنے والوں کے لیے انہوں نے پہلے ہی اس کی وجہ بیان کر دی ۔ تصوف کی زبان میں اس اسٹیٹ آف مائنڈ کو ـ’’حبِ جاہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ حب جاہ کا مطلب ہوتاہے کہ انسان دوسروں کی نظر میں اچھا ، انوکھا، خوبصورت اور دلاور نظر آنا چاہتا ہے ۔حبِ جاہ اور مخالف جنس میں کشش کی دو جبلتوں کا تعامل اسے پاگل کر ڈالتا ہے ۔ capture کرنے کے اس کھیل میں ایک اور بہت خوفناک چیز وقوع پذیر ہوتی ہے ۔ وہ چیز یہ ہے کہ آپ یا تو ایک لمحے کو کیپچر کر سکتے ہیں یاحال میں اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں ۔
کیپچر کرنے کی کوشش میں حال کی تو آپ نے قربانی دے دی۔ جہاں تک رہی مستقبل میں ان لمحات سے محظوظ ہونے کی بات تو مستقبل تک پہنچتے ہوئے حالات اور آدمی کی نفسیات ہی بدل چکی ہوتی ہیں ۔آپ گھٹنوں کے بل چلنے والے اپنے بچّے کا ہر لمحہ کیمرے میں محفوظ کر رہے ہیں کہ بڑا ہوگا تو اسے دکھائوں گا؛حالانکہ جب وہ بڑا ہوتاہے تو اس وقت تک اس سے محبت میں وہ شدت باقی نہیں رہتی ، جوشیر خوار بچوں کی انتہائی خوبصورتی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ آج جتنی تصاویراس خیال سے بنائی جاتی ہیں کہ بعد میں ان سے محظوظ ہوں گے ، ا ن میں سے نوّے فیصد بعد میں کھول کر دیکھی ہی نہیں جاتیں ؛حتیٰ کہ موبائل فون ناکارہ یا گم ہو جاتا ہے ۔ آپ صحیح معنوں میں کسی منظر سے اسی وقت لطف اندوز ہو سکتے ہیں ، جب حاضر دماغی کے ساتھ وہ لمحہ آپ نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہو ، بجائے کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کے ۔ جیسا vision انسانی آنکھ کا ہوتاہے‘ ویسا کیمرے کا ہوسکتا ہی نہیں ۔ اگر تو تین گھنٹے کی تقریب میں پندرہ بیس منٹ آپ نے مستقبل کے لیے تصاویر بنانے پر صرف کیے تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی ہے۔صورتِ حال اگر اتنی خراب ہو کہ پوری تقریب ہی اضطراب کی حالت میں بسر ہوجائے تو مستقبل کے چکر میں حال بھی گیا۔
مستقبل کی گارنٹی کوئی نہیں ۔ ایک دل کا دورہ ، ایک ایکسیڈنٹ ، مستقبل کے سارے امکانات کو نگل لیتا ہے ۔ جس شخص کے ساتھ مل کر آپ ماضی کی یادوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے ، ہو سکتاہے کہ وہ آپ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے ۔
ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آج آپ کے پاس اگر کھانے کو موجود ہے ۔آپ اور آپ کے اہلِ خانہ اگر خیریت سے ہیں تو آپ کے پاس سب کچھ موجوو ہے۔ لوگ مستقبل کو محفوظ بنانے کے چکر میں بائولے ہو چکے ہیں ۔ معمر قذافی اور صدام حسین جیسے اگر اپنے مستقبل محفوظ نہ بنا سکے تو ہم کیا بنائیں گے ۔ 2005ء کے زلزلے میں چند سیکنڈ نے سب کچھ ختم کر ڈالا تھا۔ یہ جسم ہی اتنا کمزور ہے ، موت اور تکلیفیں اس طرح اس کا پیچھا کر رہی ہیں کہ مستقل خوشی حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ ہاں ، ہم یہ کر سکتے ہیں کہ آج جو کچھ ہمیں عطا ہوا ہے ، اس سے لطف اندوز ہونا سیکھیں ۔ آج اگر میرے پاس اتنا بھی وقت موجود نہیں کہ میں اپنے بچّے سے اس وقت کھیل سکوں‘ جبکہ وہ انتہائی خوبصورت اور انتہائی معصوم ہے تو یہ وقت واپس نہیں آئے گا۔فرصت جب ملے گی تو دل کی بیماری لاحق ہو جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ منصوبہ بندی ہی نہ کریں‘بلکہ ایک توازن ہمیں قائم کرنا ہے۔