سیاسی منظر نامہ ، عمران کو اسلام آباد اورصوبوں میں ورکرز کی سیاسی بزدلی کا سامنا

28 جون ، 2022

اسلام آباد ( طاہر خلیل ) تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اسلام آباد سمیت صوبوں میں اپنے ورکرز کی سیاسی بزدلی کا سامنا ہے، 2 جولائی کو پریڈ گرائونڈ میں جلسے کیلئے انکی پارٹی نے اسلام آباد انتظامیہ کو با ضابطہ درخواست دی ہے، عمران خان نے 2 جولائی کے جلسے کے اعلان کیساتھ ملک بھر میں اپنے بے حوصلہ ورکرز کو کہا تھا کہ وہ 2 جولائی کو ہر شہر میں مہنگائی کیخلاف باہر نکلیں اور دلیری کا مظاہرہ کریں ، خان صاحب کی اپیل اسوقت سامنے آئی جب وارم اپ آپریشن کے طور انہوں نے ملک گیر سطح پر ورکرز کنونشن کیساتھ ، وکلا ء ، لیبر ، یوتھ اور ویمن ونگز کے الگ الگ اجتماعات منعقد کئے ، 25 مئی کے دھرنے کو ایک ماہ گزر گیا اس ناکامی سے پی ٹی آئی کو ایک بڑا دھچکا لگااور امریکی سازش کے ذریعے رجیم چینج کا بیانیہ دم توڑ گیا اسوقت خان صاحب نے اپنے بے حوصلہ ورکرز کو امید دلائی تھی کہ وہ 6 دن بعد یعنی 30 مئی کو دوبارہ اسلام آباد آئینگے اور ملین مارچ کیساتھ دھرنا دینگے جب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوتا اس واقعے کو ایک ماہ مکمل ہو چکاہے اور دھرنا 2کی کہیں دور تک کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی ،پی ٹی آئی کی قیادت نوحہ خواں ہے کہ 25 مئی کو حکومت نے ان کیساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، خان صاحب نے دھرنا 2 کیلئے عدلیہ سے گارنٹی طلب کرنے کی کوشش کی ،سپریم کورٹ سے درخواست واپسی کے بعد پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر عدلیہ کو نشانے پر لے رکھا ہےاور عدلیہ کیخلاف مختلف ٹرینڈز چلا ئے جارہے ہیں لیکن دھرنا 2 کی کوئی ڈیٹ نہیں دی جارہی ایک لمحہ رک کر سوچئے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت پر دو آراء نہیں پی ٹی آئی اقتدار سے الگ کئے جانے کے باوجود آج بھی ملک کی مقبول اور بڑی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے مانی جاتی ہےاور اگلے عام انتخابات کی اہم پلیئر ہو گی ، اس میں شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس قابل ذکر عوامی طاقت ہے اس کے جلسوں میں ہر طرح کے لوگ شریک ہوتےہیں پھر کیا وجہ تھی کہ 25 مئی کو اسلام آباد مارچ ناکام رہا ؟ ،خان صاحب کا تجزیہ ہے کہ ورکرز کی سیاسی بزدلی ختم کرنا ضروری ہے جس کیلئے انہوں نے 2 جولائی کی نئی کال دی ہے ، 2 جولائی کا اسلام آباد ،لاہور ، پشاور ،کراچی اجتماع پی ٹی آئی کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہو گا ، پی ٹی آئی 2 جولائی کے بعد طے کریگی کہ اسے اسلام آباد مارچ کی طرف بڑھنا ہے یا ابھی wait and seeوالی پوزیشن پر رہتا ہے ، اگر 2 جولائی کو انکے ورکرز خان صاحب کی توقعات کے مطابق باہر نکلے تو پھر سیاسی بزدلی گرم لو ہے پر چوٹ لگانے میں رکاوٹ نہیں ہو گی دوسری جانب پی ٹی آئی نے انتخابی اصلاحات پر مکالمے کی حکومتی پیشکش پر مثبت جواب دیکر ایک نئی سیاسی پیشرفت کی ہے ،پارلیمنٹرینز کے ایک گروپ ڈنر ، جس میں پی ٹی آئی کے کئی مستعفی ارکان بھی موجود تھے ،میں فواد چوہدری کا بیان زیر بحث رہا کہ پی ٹی آئی ایک نئے میثاق جمہوریت پر حکومت سے بات چیت کر سکتی ہے جس میں انہوں نے نئے الیکشن کمیشن کے قیام اور انتخابی اصلاحات کی بات کی ہے ،حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو جانبداری کا الزام عائد کرتی ہے لیکن پی کے 7 سوات صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امید وار فضل مولا کی کامیابی پر الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری قابل تحسین قرار دی جارہی ہے کہ 13 جماعتیں ملکر بھی پی ٹی آئی کے امید وار کو نہ گر اسکیں اس کیساتھ سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی کی کامیابی قبول نہیں اور الزام لگایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے جانبداری دکھائی یہ کیا سیاست ہے کہ سوات میں پی ٹی آئی کا میاب ہوتی تو الیکشن کمیشن قبول ، سندھ میں ناکام تو الیکشن کمیشن پر الزام اس نے ددہرے معیار اپنا رکھے ہیں ، ملکی سلامتی کے معاملات ہوں یا ضمنی انتخاب کے نتائج پی ٹی آئی نے دوہرے معیار اپنا رکھے ہیں ،جمہوریت پر اعتماد ،نیشنل سکیورٹی اور قومی امور پر گو مگو کی کیفیت سے باہر آنا ہو گا۔