بلوچ طلبا سے میٹنگ کے با وجود ان کی شکایت کا ازالہ کیوں نہیں ہوا،چیف جسٹس اطہر من اللہ

28 جون ، 2022

اسلام آباد (خبر نگار،این این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ کےچیف جسٹس نے ملک بھر میں بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے اور انکی شکایات کے ازالے کیلئےسیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری انسانی حقوق کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہاکہ بتائیں بلوچ طلبہ کیساتھ میٹنگ کے باوجود انکی شکایات کا ازالہ کیوں نہیں ہوا ، انکوائری کمیشن بننے کے باوجود ابھی تک اسکا اجلاس کیوں نہیں ہو سکا،سیکرٹری دفاع نے اپنے آفیشل کیخلاف ضابطے کی کارروائی سے متعلق رپورٹ پیش کریں، ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت میں ناکام ہوئی بلوچ طلبہ کے مسائل کو حل کیا جائے ورنہ یہ عدالت فیصلہ دیگی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بلوچ طلبہ کی درخوا ست پر سماعت کی،بلوچ طلبہ کی جانب سے وکیل ایمان زینب حاضر مزاری جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ امتیاز عدالت کے سامنے پیش ہوئے، سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ حکومت کی جانب سے بلوچ طلبہ اور درخواست گزار کی شکایات کا ابھی تک ازالہ نہیں کیا گیا ، بلوچ طلبہ کیوں یہ محسوس کریں کہ انکی نسلی پروفائلنگ کی جارہی ہے؟ عدالت اجازت نہیں دیگی کہ کوئی ایک بلوچ سٹوڈنٹ بھی سوچے کہ اسکی شکایت کا ازالہ کرنے کیلئے کوئی نہیں ، تمام سیاسی جماعتیں کمیشن میں موجود ہیں تو پھر اس میں مسئلہ کیا ہے؟ لگتا ہے بلوچ طلبہ کو سنگین مسائل کا سامنا ہے جن کو حل نہیں کیا جا رہا ، یہاں بلوچ طلبہ کی پٹیشنز آنے کے بعد حکومت نے اب تک کیا کیا ہے؟، چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیاکہ سکیورٹی ایجنسیاں کس کے ماتحت ہیں؟جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر اسکا ذمہ دار کون ہے، ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ قائد اعظم یونیورسٹی نے وہاں آنیوالے افسر کیخلاف ڈسپلنری پروسیڈنگز سے متعلق لکھا ، ابھی تک سیکرٹری دفاع نے اسکا کوئی جواب نہیں دیا، عدالت نے استفسار کیاکہ اس کیس میں کمیشن نے ابھی تک کچھ کیا ہے ، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ انکوائری، تفتیش اور پھر جامع رپورٹ جمع کرنے میں وقت لگے گا، ایمان مزاری نے کہاکہ وفاقی حکومت نے کمیشن بنانے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ، عدالت نے کہاکہ بلوچستان کے معاملے سے ملک میں کوئی اور بڑا اہم معاملہ ہوسکتا ہے ؟، چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمنٹ اور سینٹ کو اس معاملے کو اولین ترجیح پر اٹھانا چاہئے،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہم اس معاملے کی نوعیت کو سمجھ سکتے ہیں اور ہماری کوشش ہے اسکا حل نکلے، وفاقی حکومت نے کمیشن کے ممبران کو نوٹسز جاری کئے ہیں، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا سیاسی جماعتیں بلوچ طلبہ کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتیں ؟،بلوچ طلبہ نے بہت ہی اہم اور آئینی سوالات اٹھائے ہیں آپ دلائل دیں عدالت فیصلہ کریگی اس عدالت کیلئے بلوچ طلبہ سے زیادہ کوئی اہم نہیں ،ایک ریاست ہے اور ریاست آئین کے تحت چلے گی، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ صرف اس نقطہ پر دلائل دے کہ بلوچ طلبہ کی پروفائلنگ کیوں کی جارہی ہے اور کون لوگ ذمہ دار ہیں ان کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا، چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استفار کیاکہ خفیہ ایجنسیاں کس کے ماتحت ہیں؟ ، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ خفیہ ایجنسیاں وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں، عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع سے آفیشلز کا قائد اعظم یونیورسٹی جانے اور طلبہ سے انکوائری پر بھی رپورٹ طلب کرلی،عدالت نے کیس کی سماعت 5 جولائی تک کیلئے ملتوی کردی۔