وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخابات کا معاملہ،دیکھنا ہے آرٹیکل A63پر سپریم کورٹ کی تشریح موجودہ حالات پر لاگو ہو سکتی ہے، لاہور ہائیکورٹ

30 جون ، 2022

لاہور(نمائندہ جنگ)لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5رکنی بنچ کے روبرو حمزہ شہباز کو عہدہ سے ہٹانے کیلئے پی ٹی آئی اور چوہدری پرویز الہٰی درخواستوں پر دلائل مکمل ہو گئے،مزید سماعت آج ساڑھے 12 بجے تک ملتوی ہوگئی،دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کا معاملہ پر ہمیں دیکھنا ہے کہ آرٹیکلA63پر سپریم کورٹ کی تشریح موجودہ حالات پر لاگو ہو سکتی ہے یا نہیں،جسٹس صداقت علی خان نے وکیل احمد اویس سے کہا کہ کیا آپ صدر سے متعلق آبزرویشنز بارے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟احمد اویس نے کہا کہ صدر کے ریمارکس کو کالعدم قرار دینا چاہئے، جسٹس شاہد جمیل نے حمزہ شہباز کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے سمجھتے ہیں،آپ سپریم کورٹ جاکر فیصلے پر نظر ثانی کرائیں۔جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے ریمارکس دئیے کہ جب صدر کو سنا ہی نہیں گیا تو ان کے بارے میں کیسے ریمارکس دے سکتے ہیں جبکہ جسٹس شاہد جمیل نے کہا کہ احمد اویس صاحب، ہم آپ کو 5 منٹ دے رہے ہیں آپ عدالت کو مطمئن کریں،تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا عدالت کے سامنے 3طرح کی درخواستیں ہیں، ایک درخواست الیکشن سے متعلق ہے، دوسری حلف برداری کے حوالے سے جبکہ تیسری پٹیشن غیر قانونی اقدامات سے متعلق ہے، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ حمزہ شہباز کے وکیل ہمارے چند سوالات کے جواب دیں، اب تو پورے پاکستان کو پتا چل گیا ہے کہ ہم یہ سوچ کر بیٹھے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ماضی سے اطلاق ہوگا، مخصوص نشستوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے یا نہیں یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں، ہم الیکشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو دیکھ رہے ہیں، جسٹس شاہد جمیل نے نقطہ اٹھایا کہ ڈی سیٹ ہونیوالے ارکان کا ریفرنس بھیج دیا گیا، سپریم کورٹ میں معاملہ زیرسماعت تھا، وزیراعلیٰ کا الیکشن ہوا، اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، ہم اسے کیسے نظر انداز کر دیں، کیا یہ فیصلہ ماضی پر اطلاق کرتا ہے، آپ اس پوائنٹ پر معاونت کریں،حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل مکمل کئے تو عدالت نے سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کر دی،سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی کو روسٹرم پر دلائل کیلئے طلب کیا گیا، جسٹس صداقت علی نے ان سے استفسار کیا کہ اپیلوں پر مزید دلائل دینے ہیں، امتیاز صدیقی نے کہا کہ تفصیلی تحریری دلائل عدالت میں جمع کروا دیئے ہیں جس پر جسٹس صداقت علی نے کہا کہ ہم نے ان کا جائزہ لے لیا ہے،دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ منحرف اراکین کے ووٹ ڈالنے پر انتخاب کالعدم قرار دیا جائے، حکم یہ ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کیے جائیں، آپ سپریم کورٹ کی تشریح کو پڑھ سکتے ہیں، اگر ہم وزیراعلیٰ کا انتخاب کالعدم اور نیا انتخاب کروانے کا فیصلہ دیں گے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہوگا۔