سیاسی منظر نامہ ،احسن اقبال سے بدتمیزی واقعہ، شدت پسندانہ رجحانات بڑھ رہے ہیں

10 جولائی ، 2022

اسلام آباد ( طاہر خلیل ) مولانا امین احسن اصلاحی اور آپا نثار فاطمہ مرحومین خوانوادے سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنما احسن اقبال کے ساتھ بھیرہ ریسٹورنٹ میں چند من چلے نوجوانوں کی طرف سے بد تمیزی واقعہ پر ملک بھر کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں کی جانب سے جس ردعمل کا اظہار ہوا اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ سیاست میں بدتمیزی کے بڑھتے کلچر سے ملک میں دت پسندانہ رجحانات فروغ پذیر ہیں ،جسے ختم کرنے کیلئے تمام اہل سیاست کو متفقہ لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ احسن اقبال نے ریستوران میں ایک فیملی کے لاابالی نوجوانوں کے سامنے تحمل اور برداشت کا قابل تقلید مظاہرہ کر کے اپنی بہترین خاندانی تربیتی روایات کو برقرار رکھا، احسن اقبال کے ساتھ فاسٹ فوڈ ریستوران میں جو واقعہ ہوا یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں حالیہ ماضی میں میاں نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے ساتھ لندن میں سیاسی مخالفین شاہراہوں اور ریستورانوں میں اسی طرح کی بد تمیزی اور جہل پن کا مظاہرہ کرتے رہے میاں شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب میں مسجد نبوی ؐ میں مریم اورنگزیب ، شاہ زین بگٹی اور پاکستانی وفد کے دیگر ممبران کے ساتھ بے راہرئوں نے جو کاررائی اور نعرے بازی کی اس پر دینی حلقے آج بھی افسردہ ہیں کہ مسجد نبوی ؐ کا تقدس پامال کیا گیا اور سیاسی مخالفت میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ شعائر اسلامی کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا گیا ،سعودی حکومت نے اس افسوسناک واقعے کے کچھ ذمہ داروں کو سزائیں دی ہیں اور ان کی تاحیات سعودی عرب داخلے پر پابندی لگا دی یہ افسوسناک پہلو ہے اور اس حقیقت سےا نکار نہیں کہ سیاست میں بدتمیزی اور بد اخلاقی کا کلچر عمران خان نے متعارف کرایا خود عمران خان نے ایک پبلک میٹنگ میں اعتراف کیا کہ انہیں ایک ادارے کے سینئر عہدیدار نے کہا تھا کہ جلسوں میں مولانا فضل الرحمٰن کو ڈیزل یا فضلو نہ کہا کریں ، لیکن انہوں نے کسی جانب سے بھی ایسے مشورے قبول نہ کیا اور ہر ایک کا نام بگاڑا تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان اور ان کی پارٹی کے رویوں میں غصے کی تیزی آگئی ہے اسد عمر جو پی ٹی آئی کے نرم سیکرٹری جنرل مانے جاتے ہیں اب وہ بھی کئی جگہ عامیانہ لب و لہجہ اختیار کر رہے ہیں احسن اقبال کو مسلم لیگ (ن) کا ارسطو سے مخاطب کرتے ہیں ،لیکن کیا شہباز گل جو طرز تکلم اپنائے ہوئے ہیں اسے شائستگی کے کسی ہما شما میں شمار کیا جا سکتا ہے ، سیاست میں عدم برداشت اور گالم گلوچ کے بڑھتے رجحانات سنگین صورت اختیار کر رہے ہیں سوال یہ ہے کہ سیاست میں بد تمیزی ،گالم گلوچ ، مارپیٹ اور تصادم کا یہی کلچر دیگر جماعتوں کے کارکنوں نےبھی اپنا لیا تو سیاسی منظر نامہ کیا رخ اختیار کرے گا؟ احسن اقبال کو دیکھ کر ’چور چور ‘ کے نعرے بازی کی ویڈیو پر سوشل میڈیا پر مختلف قسم کا ردِعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔جہاں کچھ صارفین نے اس رویے کی مذمت کی وہیں کچھ صارفین کا خیال ہے کہ یہ عوامی ردِعمل ہے جس کو روکنا ممکن نہیں۔اپنے ٹوئٹر پیغام میں احسن اقبال نے کہا کہ بھیرہ کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک فیملی سے مڈ بھیڑ ہوئی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ بظاہر خود کو ایلیٹ سمجھتی ہے مگر مکالمہ کی بجائے جاہلوں کی طرح نعرہ بازی شروع کر دی۔جب یہ نعرہ بازی سے باز نہ آئی تو لوگوں نے بھی نعرے لگا دئیے “گوگی پیرنی کا حساب دو” جیسا جاہل اور پاگل خود ویسے ہی پیروکار پیدا کر رہا ہے۔احسن اقبال کے اس ٹویٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے انہیں برقع پہننے کا مشورہ دیا۔فواد چوہدری نے کہا کہ سر ویڈیو میں تو صرف آپ کی بے عزتی نظر آئی ہے، آپ جھوٹ بولنا بند کریں اور لوگوں میں برقع پہن کر جایا کریں ۔ٹویٹر اکائونٹ پر صارفین احسن اقبال کے حوالے سے بہت سے سوالات کر رہے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان عوام کے ذہنوں سے کھیلنا خوب جانتے ہیں حالانکہ ان کی ماضی میں زندگی کیسے گزری، اس سے سب واقف ہیں۔آج کل کی سیاست میں جھوٹ اور منافقت کی جس وسیع پیمانے آمیزش ہوچکی ہے ۔ اہل فکر و نظر کا ماننا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا تعین کرنا ضروری ہے اور اظہار رائے کی آزادی کو ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہے ، پارلیمانی قوت اورپختہ سیاسی عزم کے ساتھ سیاست میں شائستگی لانے کیلئے پارلیمانی اخلاقیات کمیشن کی گم گشتہ حقیقت کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔