عیدالاضحیٰ اور فلسفہ قربانی

اداریہ
10 جولائی ، 2022

عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ  مسلم امہ کے دو ایسے تہوار ہیں جو اپنی نوعیت و کیفیت میں دوسری اقوام کے تہواروں سے مختلف و منفرد ہیں۔ہادیِ اعظم نبیِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آنحضرتؐ نے مذکورہ دو تہواروں کی جگہ حق تعالیٰ جل شانہ کی طرف سےدو دوسرے تہوار مقرر کئے جانے کی نوید دی جن میں لہو و لعب، من مانی سرگرمیوں، انفرادی شوکت اور طبقاتی اونچ نیچ کے اظہار کی گنجائش نہیں بلکہ دونوں تہوار عبادت الٰہی کا حصہ ہیں اور دونوں کی روح قربانی ہے۔ عیدالفطر پر فطرے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی پیش کی جاتی ہے۔ جبکہ عیدالاضحیٰ پر معین تاریخوں میں مخصوص جانور ذبح کئےجانے کا عمل اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے پیش کردہ قربانی کی علامتی تجدید ہے۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار برس قبل حضرت ابراہیم ؑنے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے کمسن فرزند اسماعیل ؑکو ذبح کر رہے ہیں۔ انبیاؑ کے خواب چونکہ سچےاوراللہ کی جانب سے رہنمائی ، ہدایت یا حکم کا ذریعہ ہوتے ہیں اسلئے انہوں نے اس حکم الٰہی کی تسلیم و رضا کی پوری کیفیت کے ساتھ تعمیل کی۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے طور پر پوری قوت سے چھری چلا کر یہ قربانی پیش کرچکے تھے۔ مگر باری تعالیٰ کی مشیت اسماعیل ؑکے ذبح کی نہیں، دنیا کو دکھانے کی تھی کہ خالق و مالک کے حکم پر اپنی جان اور مال سمیت ہر عزیز شے کی قربانی کے لئے کس آمادگی سے تیار رہا جاتا ہے چنانچہ جنت سے ایک مینڈھا وہاں پہنچا کر اس کا ذبیحہ کرایا گیا۔قرآن مجید کی سورہ ’’الصّٰفّٰت‘‘ میں کئے گئے ارشاد ربانی کے بموجب ایک طرف قربانی کی قبولیت کی سند ان الفاظ میں دی گئی کہ’’ ہم نے انہیں پکارا کہ اے ابراہیم تم نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا‘‘تو دوسری جانب اسی سورہ میں یہ اعلان کر دیا گیا’’ ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا (حضرت اسماعیلؑ کا) فدیہ بنا دیا‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنے والا درحقیقت اپنی قربانی پیش کرتا اور یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کی جان و مال سمیت ہر عزیز شے اللہ کی نذر ہوچکی ہے۔ قربانی کے وقت جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت جو دعا پڑھی جاتی ہے اس میں بھی کہا جاتا ہے کہ ’’میری نماز اور میری عبادت، میرا مرنا اور جینا۔ سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں‘‘۔ اس جامع اقرار کا مفہوم پوری طرح سمجھ کر زندگی گزاری جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم معاشرے میں استحصال، ظلم، جبر، حق تلفی، خیانت جیسی شکایتیں عام ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید امّت کے ہر فرد کے سامنے موجود ہے۔ پیغمبر آخر الزماں کی سیرت کے ہر ہر پہلو پر سیر حاصل معلومات تک ہر فرد کی رسائی ہے۔ پھر یہ کیوں ہے کہ مسلم ممالک اس ممتاز مقام پر نظر نہیں آتے جس پر خیرامت ہونے کی حیثیت سے انہیں نظر آنا چاہئے۔ مذکورہ سوال کے تمام پہلوئوں پر مسلم امہ کے دانشوروں اور علمائے کرام سے لیکر حکمرانوں تک کو غور کرنا ہوگا۔ قرآن کا حکم ہے ’’اللہ کی رسّی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائو‘‘۔ صرف اس حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل شروع کر دیا جائے تو یہ ممکن نہیں کہ مسلم ممالک کے انفرادی داخلی امور سے لے کر بین الاقوامی سطح تک بہت سے شعبوں کے معاملات ہم آہنگی سے عاری رہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسلامی تعاون تنظیم، جو اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے، زیادہ منظم و فعال نظر آئے۔ مطالعاتی گروپوں، تھنک ٹینکس اور صاحبان اختیار کی کمیٹیوں کے ذریعے باہمی رابطوں کو موثر بنانے اور تعاون بڑھانے کی صورت نکالی جائے اور ایسی کاوشیں بروئے کار لائی جائیں جن سے نہ صرف مسلم امّہ کے حالات میں بہتری آئے بلکہ انسانی برادری کے وسیع تر مفادات کے پہلو بھی نمایاں ہوں۔