اب قربانیاں دو فیصد کو دینا ہوں گی

محمود شام
10 جولائی ، 2022

آپ کو آپ کے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو عید قرباں مبارک۔


حجِ اکبرکی سعادت حاصل کرنے والے تمام کلمہ گوئوں، ہم وطنوں اور ان کے اہلِ خانہ کو یہ عظیم مرتبہ مبارک۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور سارے انسانوں پر اپنا کرم نازل کرے۔ مملکتوں کو اقتصادی ، سیاسی اور سماجی بحرانوں سے نجات عطا کرے۔ ہم پاکستانیوں کو تیزی سے پھیلتی اخلاقی پستی سے باہر نکالے۔ بہت دُکھ ہورہاہے۔ جیسی زبان استعمال ہورہی ہے۔ اعلیٰ مناصب پر فائز پاکستانی ہر لمحہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ ان عظمتوں کے اہل نہیں تھے۔ بندر بانٹ میں ان کی لاٹری نکل آئی ہے۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں ہے کہ ان کے الفاظ ان کے جملے ذہنوں میں کیسا زہر گھول رہے ہیں۔


برسات میں چیونٹیوں کے پر نکل آتے ہیں۔ زیادہ دور تو اڑ نہیں سکتیں مگرفضا کو مکدر تو کردیتی ہیں۔


اللہ اکبر کی صدائیں فضا کو متانت اور تدبر عنایت کررہی ہیں۔ لبیک اللھم لبیک۔ ہم حاضر ہیں۔ دو سال کعبے کا صحن خالی رہا ہے۔ رحیم و کریم کا شکر کہ طواف پھر بحال ہوگیا ہے۔ مقاماتِ مقدسہ کی رونقیں پھر شروع ہوگئی ہیں۔ دور دراز ملکوں میں مقیم امتیوں کو پھراللہ کے گھر میں حاضری کا موقع مل رہا ہے۔


یہ قربانیوں کی عید ہے۔اپنی عزیز ترین متاع اللہ کی راہ میں قربان کرنے ، سنّت ابراہیمی ادا کرنے کا دن۔


ہر ایک زخم پہ ایک اور زخم کی ہے طلب


عجیب نشہ ہے قربانیوں کے موسم کا


75سال سے عوام قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ ڈھاکا سے چٹاگانگ تک۔ لاہور سے کوئٹہ تک۔ پھر 24ویں سال میں ہمارا اکثریتی بازو قربانیاں الگ سے دینے کے لیے ہم سے علیحدہ ہوگیا اور دیکھیں کہاں پہنچ گیا۔ یعنی اس کی ترقی میں ہم رکاوٹ تھے۔ بالکل برحق۔ ہم اس کے بچھڑنے کے بعد سے مسلسل زوال میں ہیں۔


51 سال میں ہم نے یہ بھی ثابت کیا کہ اپنی ترقی میں بھی ہم رکاوٹ ہیں۔ اور اب وقت آگیا ہے جیسا کہ ہم ترقی کی راہ میں حائل اصل چہروں کو بھی پہچان رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کہرام مچا ہوا ہے۔ سب جان رہے ہیں کہ اس سیریل کا مرکزی کردار کون ہے؟ ان کرداروں پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اور 22کروڑ للکار رہے ہیں۔ 98فی صدازل سے قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ اب ان کے پاس قربان کرنے کو کچھ بچا بھی نہیں ہے۔ اسلئے اب وہ قربانیاں نہیں دے سکتے ، نہ دیں گے۔ اب کے قربانی 2فی صد کو دینی ہوگی۔ یہ کوئی 44لاکھ بنتے ہیں۔ 50لاکھ سمجھ لیجئے۔ ساری جائز اور ناجائز دولت ان 50لاکھ کے پاس ہے۔ ان میں جاگیردار بھی ہیں،سرمایہ دار بھی، سردار بھی، رئیس، تمن دار، شہری مافیا،ٹھیکیدار، پانی مافیا، زمین مافیا، قانون مافیا،علاج مافیا، بازار مافیا،برادری مافیا، مذہبی سوداگر۔


پاکستان بن رہا ہے۔ 98فی صد سفر عبور کرکے غلامی سے آزادی کی طرف آرہے ہیں۔ ٹرینوں میں لٹے پٹے، کٹے پھٹے آرہے ہیں۔ بیل گاڑیوں میں ہجرت ہورہی ہے۔ پیدل مسافتیں ہورہی ہیں۔ لیکن 2فی صد غلامی سے آزادی کی مسافت ہوائی جہازوں سے عبور کررہے ہیں۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ 1947 سے شروع ہوجاتا ہے۔ 98فی صد مسلسل قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ انہیں میرٹ کی چوکھٹ پر قربان کیاجارہا ہے۔ ان کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ پگڑیاں، دستار، عمامے، جبّے، ٹوپیاں، تھری پیس سوٹ، پھڑ پھڑاتے کلف لگے کپڑے۔ شیورلیٹ، امپالا، پجیرو، مرسیڈیز،سفاری، لینڈ روور، ڈبل کیبن۔ سب 98فی صد سے قربانیاں مانگتے آئے ہیں۔وہ رکشوں، بسوں،ویگنوں، چنگ چیوں، تانگوں میں قربان ہوتے آرہے ہیں۔


2فی صد 98فی صد کی تقدیر کے فیصلے کرتے آرہے ہیں۔ اکثریت کو فیصلہ سازی میں شرکت کا موقع نہیں دیا جاتا۔ جمہوریت ہو یا آمریت۔ سادہ لباس ہوں یا وردی والے اہم فیصلے بالا بالا ہی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے در پر دستک دے رہے ہوتے ہیں۔ عالمی بینک کی گھنٹی بجارہے ہوتے ہیں۔ انتخابات کا سوانگ رچایا جاتا ہے۔ ووٹ کو عزت دی جاتی ہے ۔لاکھوں ووٹ لینے والے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ووٹرز کی شکل بھی نہیں دیکھتے۔ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینیٹ ان 2فی صد کی پکنک گاہیں ہیں۔ قائمہ کمیٹیاں ان کی شکار گاہیں۔ جمہوریت کی ساری رسمیں پوری کی جاتی ہیں۔ لیکن جمہوریت کی روح کوقریب نہیں پھٹکنے دیا جاتا۔ اپنی تنخواہیں ومراعات بڑھانے کیلئے ہم نوا ہوجاتے ہیں۔ ویسے گز گز بھر کی زبانیں نکال کر ایک دوسرے پر گند اچھالتے رہتے ہیں۔


98فی صد کو کسی فیصلے کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب ان کی کمر پر کسی لیوی یا محصول کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ کوئی آفت ہو آسمانی، زمینی، ناگہانی یا پہلے سے بتاکر آنے والی وہ بھی 98فی صد سے ہی خون مانگتی ہے۔ اسی کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ 2فیصد اپنی عافیت گاہوں میں آرام سے یہ خونیں تماشے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اب جب بادل بے قابو ہو رہے ہیں۔ پنجاب، گلگت ، سندھ، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر، کے پی کے میں بارش پانی ریلوں کی صورت میں تباہی مچارہا ہےتو کس کے گھر گر رہے ہیں۔ کس کے بچے پانی میں بہہ رہے ہیں؟ اسی 98فی صد کے۔ خوفناک بارشیں بھی 2فی صد کو کچھ نہیں کہتیں۔ تحفظ صرف ان کو ہے۔ 98 فی صد کے گھر پختہ ہیں نہ سڑکیں۔غربت کی لکیر سے نیچے لاکھوں ہر مہینے جارہے ہیں۔ ان کے خواب بکھر رہے ہیں۔ ان کے حواس چھینے جارہے ہیں۔ راحتوں پر ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ گھر بک رہے ہیں۔ 2فیصد کے بنگلے وسیع ہورہے ہیں۔ ان کی املاک پھیل رہی ہیں۔ فارم ہائوس بس رہے ہیں۔سرکاری عمارتیں سولر انرجی سے فیضیاب ہورہی ہیں۔75سال سے 98فیصد قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ لیکن جس ملک کیلئے قربان ہورہے ہیں۔ وہ مقروض ہورہا ہے۔ ملک غریب ہے کمزور ہے۔ لیکن 2فیصد امیر ہیں۔ طاقت ور ہیں۔ قانون ان کی باندی ہے۔ غلاموں کی فوجیں ان کے ہر حکم پر حاضر ہیں۔


مگر اب مسجدوں کے مینار، موبائل فون کے ٹاور، گرڈ اسٹیشن، پاور ہائوس،ٹرانسمیشن لائنز، چوپال، چورنگیاں عید قرباں پر زبان حال سے کہہ رہی ہیں۔ اب کے قربانیاں 2فی صد کو دینا ہوں گی۔ 98 فیصد کے پاس قربان کرنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔