حضرت ابراہیم ؑ کا اصل امتحان

یاسر پیر زادہ
10 جولائی ، 2022
کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لیے لے جاتے اور عین وقت پر خدا انہیں نہ روکتا ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابرہیمؑ خدا کا حکم نہ مانتے اور اپنے بیٹے کی قربانی کی نیت ہی نہ کرتے ؟ کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابراہیمؑ بیٹے کو قربانی کی نیت سے تو لے جاتے مگر پھر اُن کا ارادہ تبدیل ہوجاتا اور وہ راستے میں سے ہی واپس لوٹ آتے؟ آج دنیا کے دو ارب مسلمان عیدالاضحی منا رہے ہیں ، یہ عید اُس قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے جب خدا نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سب سے عزیز شے اُس کی راہ میں قربان کردیں۔ اسلامی روایت، یہودیت اور مسیحیت سے ذرا مختلف ہے ، اسلام میں جس بیٹے کا ذکر ہے وہ حضرت اسماعیل ؑ ہیں جب کہ یہودیوں اور مسیحیوں کے مطابق وہ حضرت اسحاق ؑ تھے تاہم اصل واقعہ پر تینوں ادیان کا اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو خدا نے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا تھا اور وہ بیٹے کو قربان کرنے کی نیت سے لے کرگئے تھے مگر جب انہوں نے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی تو عین وقت پر خدا نے بیٹے کی جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا اور یوں آپ ؑ کی قربانی بھی قبول ہو گئی اور بیٹے کی جان بھی بچ گئی ۔
سورن کرکگارڈ انیسویں صدی کا ایک مغربی فلسفی تھا، اُس نے اپنے قلمی نام سے fear and trembling کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی، اِس کتاب میں اُس نے حضرت ابراہیمؑ کے واقعے کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیسے حضرت ابراہیم ؑ ایمان کے اُس اعلی ٰ ترین درجے پر فائز تھے جہاں حکم ربی کو تمام آفاقی اصولوں اور اخلاقیات کے پیمانوں سے افضل سمجھ کر انہوں نے بیٹے کی قربانی کا فیصلہ کیا جو رہتی دنیا تک امر ہوگیا۔ کرکگارڈ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑکا ایمان کامل تھا اور اُس کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ جب خدا نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر صحرا میں جا بسیں تو انہوں نے اِس حکم کی تعمیل کی کیونکہ انہیں علم تھا کہ خدا کے ہر حکم میں کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔کرکگارڈ کہتا ہے کہ قربانی والے واقعے میں ہم صرف انجام پر غور کرتے ہیں جب حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے چھری ہاتھ میں تھام لی او خدا نے عین وقت پر مینڈھا بھیج کر بیٹے کی جان بچا لی جبکہ حضرت ابراہیم ؑ کی عظمت اِس بات میں بھی پوشیدہ ہے کہ انہوں نے تین دن اُس پہاڑ تک سفر کیا جہاں خدا نے انہیں قربانی کا حکم دیا تھااور اِس دوران خود کو اِس بات پر آمادہ رکھاکہ دنیا کے اخلاقی قوانین ، چاہے آفاقی ہی کیوں نہ ہوں، حکم ربی سے برتر نہیں ہوسکتے کیونکہ انسان خدا کی حکمت کو نہیں جان سکتا ۔ اِس ضمن میں کرکگارڈنے teleological suspension of the ethical کی اصطلاح استعمال کی جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بات کو اُس کے مقصد کی بنیاد پر ثابت کیا جائے نہ کہ اُس کی توجیہہ تلاش کی جائے۔ حضرت ابراہیم ؑ یہ جانتے تھے کہ دنیاوی اخلاقی قوانین کے تحت بیٹے کی قربانی درست فعل نہیں اور اگر ایک مرتبہ انہوں نے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی تو پھر یہ عمل واپس نہیں ہو سکے گا لیکن اِس کے باوجود انہوں نے دنیاوی اخلاقی قوانین کو معطل کرکے اپنا فیصلہ اِس ایمان کی بنیاد پر کیا کہ خدا کی حکمت اِن دنیاوی قوانین سے ماورا ہے اور خدا کے کسی حکم کا ’مقصدغیر اخلاقی‘ نہیں ہوسکتا لہذا انہوں نے دنیاوی اخلاقی قوانین بالائے طاق رکھ کر خدا کے حکم کو فوقیت دی ۔یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم کبھی یہ نہیں جان پائیں گے کہ کیوں حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ، یہ ایمان کا وہ درجہ ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ جیسا پیغمبر ہی پہنچ سکتا تھا کوئی دوسرا انسان نہیں ۔ اصل میں یہ حضرت ابراہیم ؑ کا ایمان تھا جس کی قوت کی بنا پر انہیں یقین تھا کہ خدا اُن کے بیٹے کو مرنے نہیں دے گا ، اگر اُن کا ایمان کمزور ہوتا تو وہ بیٹے کی قربانی کاارادہ ہی نہ کرتے۔ لیکن یہاں ایک باریک نکتہ مزید بیان کرنا ضروری ہے کہ اگر حضرت ابراہیمؑ کا ایمان تھا کہ خدا اُن کے بیٹے کو بچا لے گا تو پھر یہ کسی قسم کا امتحان نہ ہوتابلکہ چھری پھیرنے کی رسمی کارروائی ہوتی جبکہ خدا کوتو حضرتابراہیم ؑ کا امتحان لینا مقصود تھا۔سو یہاں’یقین‘ اور ’ایمان‘ کا فرق سمجھنے کی ضرورت ہے ، ایمان میں اِس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کوئی شخص غلط بھی ہوسکتا ہے مگر یقین کرنے کا مطلب ہے کسی چیز کے بارے میں حتمی رائے رکھنا ۔سو حضرت ابراہیم ؑ کو کامل یقین نہیں تھا کہ اُن کا بیٹا بچ جائے گا مگر وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ حکم ربی کبھی حکمت سے خالی نہیں ہوسکتا ،ایمان اور یقین کی یہ کشمکش ہی حضرت ابراہیم ؑکا امتحان تھی اور خدا کا یہ برگزیدہ پیغمبر اُس امتحان میں سرخرو ہوا۔
کانٹ کا نقطہ نظر کرکگارڈ سے مختلف ہے ۔ کانٹ ایسی اخلاقی اقدار کا قائل ہے جو آفاقی ہیں اور کسی بھی حالت میں اُن میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ۔ہم عام انسانوں کے لیے اِس آفاقی اخلاقی ماڈل پر عمل کرنا ضروری ہےکیونکہ پیغمبروں کے برعکس عام انسانوں پر نہ تو وحی نازل ہوتی ہے اور نہ وہ براہِ راست خدا سے ہم کلام ہو سکتے ہیں ۔چند برس پہلے مصطفیٰ اکول نامی ایک ترک لکھاری کا مضمون نظر سے گزرا جس میں اُس نے یہی بات کہی کہ عام انسان چونکہ خطا کا پتلا ہے اِس لیے ہمیں خدا کی منشاکو سمجھنے میں محتاط رہنا چاہیے اور مذہبی احکام کی بجا آوری میں آفاقی و اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، یہ بات خاص طور پر ہم جیسے فانی اور خطا کار انسانوں کے لیےضروری ہے جن پر مذہبی احکام براہِ راست منکشف نہیں ہوتےجیسا کہ انبیاء کرام پر ہوتےتھے لہٰذاہمیں اپنی زندگیوں میں فکری استدلال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔