ابراہیم بن ادھم، نان بائی اور اللّٰہ کا ولی

عرفان صدیقی
10 جولائی ، 2022

میں اس وقت منیٰ کے پہاڑوں کے دامن میں موجود ہوں اور حقیقت میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی برسات حجاجِ کرام پر نچھاور ہورہی ہے ، بہت ہی خوبصورت منظر ہے ، یہاں دن میں دو بار معروف علمائے کرام دنیا بھر سے آئے حجاج کرام کو حج کی اہمیت اور برکت سے آگاہ کرتے ہیں ،آج کے روح پرور بیان میں معروف عالم دین اور خطیب حافظ مولانا محمد طیب نے اپنے وقت کے بڑے عالم دین اور روحانی شخصیت ابراہیم بن ادھم کا خوبصورت واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم بن ادھم کے والد کا تعلق عراق سے تھا جب کہ ان کی پیدائش ساتویں صدی عیسویں میں افغانستان کے علاقے بلخ میں ہوئی، انکا تعلق اپنے وقت کے حکمران خاندان سے تھا تاہم انھوں نے کم عمری میں ہی بادشاہت سے کنارہ کشی اختیار کی اور روحانیت کے سفر پر نکل پڑے اور اپنے وقت کی بڑی مذہبی اور روحانی شخصیت قرار پائے ، وہ شام منتقل ہوگئے اور دین سے بہت قریب ہوچکے تھے ، سچے عاشق رسول ﷺ تھے اور روایت کے مطابق ان کا تعلق حضرت امام حسین ؓ کی نسل سے ملتا ہے ، مولانا محمد طیب بیان کررہے تھے کہ ایک دفعہ ابراہیم بن ادھم ایک طویل سفر طے کرکے نبی اکرم ﷺکے روضۂ مبارک پر حاضری کیلئے پہنچے ، مسجد نبویﷺ میں عبادت میں مشغول تھے عشا کی نماز کے بعد رات گئے عباد ت میں مشغول تھے کہ مسجد بند کرنے کا وقت ہوا وہاں خدام جو انھیں نہیں پہچانتے تھے، انہوں نے انھیں مسجد سے باہر جانے کا کہا ،کئی دفعہ کہنے کے باوجود ابراہیم بن ادھم اپنی عبادت میں مشغول رہے تو خدام انھیں ہاتھوں اور پیروں سے پکڑ کر مسجد کے باہر چھوڑ آئے ، وہاں سامنے ہی ایک نان بائی کی دکان تھی اس نے دیکھا کہ ایک نمازی کو خدام مسجد سے باہر چھوڑ گئے ہیں اور یہ نمازی کوئی مسافر لگ رہا ہے تو نان بائی نے ابراہیم بن ادھم کو اپنی دکان میں آنے کی دعوت دی اورکہا کہ رات یہاں گزار لیں، صبح فجر کے وقت دوبارہ مسجد نبوی ﷺ میں چلے جایئے گا ،ابراہیم بن ادھم مسکرا کر دکان میں داخل ہوئے اور ایک کونے میں بیٹھ گئے ، نان بائی بھی اپنے کام میں مگن ہوگیا ، ابراہیم بن ادھم دیکھتے ہیں کہ نان بائی جب روٹی تیار کرنا شروع کرتا تو بسم اللہ پڑھتا اور جب روٹی تندور سے نکالتا تو الحمد للہ پڑھتا ، ابراہیم بن ادھم نے سوچا اس بے چارے کو اسلام کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ علم نہیں ہے اور یہ اللہ کا نیک بندہ ہےلہٰذا کچھ وقت نکال کر وہ اسے دین کی تعلیم دیں گے، نان بائی نے اپنے کام سے فارغ ہوکر ابراہیم بن ادھم کو کھانا پیش کیا ، جس کے بعد ابراہیم بن ادھم نے نان بائی سے سوال کیا کہ اللہ کے بندے تجھے دین میں بسم اللہ اور الحمد للہ کے علاوہ کچھ اور بھی آتا ہے؟ نان بائی نے مسکرا کر جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے صرف یہ دو جملے ہی آتے ہیں لیکن یقین کریں اللہ تعالیٰ نے کبھی میری دعا رَد نہیں کی اور میں نے جو مانگا ہے وہ مجھے ملا ہے لہٰذا ان دو الفاظ سے ہی اپنی زندگی کے تمام کام انجام دیتا ہوں ،نان بائی خاموش ہوا اورپھرکچھ توقف سے بولا لیکن حضرت ایک دعا ایسی ہے جو آج تک اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں کی لیکن میں نے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا نہیں چھوڑا ،ابراہیم بن ادھم نے مسکراتے ہوئے پوچھا، اے نان بائی بتائو ایسی کون سی دعا ہے جو تیری آج تک قبول نہیں ہوئی ؟نان بائی نے آسمان کی جانب دیکھا،کچھ مسکرائے اوربولے، اے مسافر میں نے مصر کے بہت بڑے عالم دین اور اللہ کے ولی ابراہیم بن ادھم کی بہت تعریفیں سن رکھی ہیں کہ وہ اللہ کے بہت بڑے ولی ہیں ،میں زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ ان سے ملنا چاہتا ہوں اور یہی دعا ہر روز اللہ تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں کہ ایک بار اللہ ان سے ملوانے کے اسباب پیدا کردے ، ابراہیم بن ادھم یہ سن کر مسکرائے اور گویا ہوئے اے نان بائی بلاشبہ تو مجھ سے بڑا اللہ کا ولی ہے دیکھ آج اللہ تعالیٰ نے ابراہیم بن ادھم کو ہاتھوں اور پیروں سے پکڑ کر تیرے در پر ڈال دیا ہے، میں ہی وہ ابراہیم بن ادھم ہو ں جس سے ملنے کیلئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے ۔ بلاشبہ انسان کو کچھ نہیں معلوم کہ کو ن اللہ کا ولی ہے ،کس کی کون سی نیکی اللہ کو پسند آجائے ، کون سا سجدہ اللہ کو پسند آجائے ،شاید لاکھوں حجاج کرام میں سے صرف ایک حاجی کا حج قبول ہوجائے جس کے صدقے میں اللہ تعالیٰ تمام دس لاکھ حجاج کرام کے حج قبول کرلے ،لہٰذا اپنے تقویٰ گزار ہونے پر فخر کرنے سے گریز کریں اور ہر حال میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ زندگی بسر کریں، میں بھی یہاں تمام قارئین کیلئے دعا گو ہوں اور آپ سب سے درخواست کرتاہوں کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرا اور تمام حجاج کرام کا حج قبول کرے ۔ آمین !


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس


ایپ رائےدیں00923004647998)