(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور کبھی پھولوں اور باغات کا شہر تھا اب پلازوں، اونچی اونچی بدصورت عمارتوں ، لوہے، سریے اور اینٹوں، اور بے ہنگم اور روایات اور اقدار سے خالی شہر ہے کبھی میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ وہ لاہور کا تاریخی حسن بحال کریں گے تیرہ دروازوں کے گرد اس کے روایتی اور خوبصورت اجڑے ہوئے باغات آباد کریں گے وہ خوب صورت نہر جو ان دروازوںکے گرد کبھی رواں تھی اس کو دوبارہ بحال کریں گے مگر انہوں نے اس شہر کے اندر اورنج ٹرین اور میٹرو بس بنا کر اس کا سارا تاریخی حسن تباہ وبرباد کر دیا۔
اس لاہور نے قائداعظم ؒ پر 21مارچ 1940ء اور سر آغا خان پراتنی گل پاشی کی کہ لاہور میں ایک بھی گلاب نہ رہا، لاہور میں کوئی بھی بارات گلاب کے پھولوں کے بغیر ہمیشہ نامکمل سمجھی جاتی تھی پھر اس لاہور میں لال، گلابی، سفید اور پیلے رنگ کے ہزاروںگلاب پودے ہوا کرتے تھے اب تو دوربین لےکر بھی لال رنگ کےگلاب کے پودے نہیں ملتے، سفید ،پیلے اور گلابی رنگ کے پودوں کی بات ہی چھوڑیئے۔
لارنس گارڈن کے اندر کبھی سینکڑوں گلاب کے پودے ہوا کرتے تھے لاہور کےتمام باغات میں کبھی بہت جگنوجگ مگ کرتے تھے ۔لارنس گارڈن اور بوٹینیکل گارڈن میں رات کو اس قدر جگنو ہوتے تھے ایسا لگتا تھا کہ درختوں اور پودوں پر چھوٹے چھوٹے ستارے جگمگا رہے ہوں ہم خود ایک طویل عرصہ تک رات کو لارنس گارڈن کی سیر کو جایا کرتے تھے تو کبھی کبھی جگنو ہمارے کپڑوں پر آکر بیٹھ جاتے تھے ۔ہم دوست ایک دوسرے کے سر کے بالوں میں جگنو ڈال دیا کرتے تھے ۔ہائے کیا زمانہ تھا ایچیسن کالج کے اندر بہت جگنو ہوا کرتے تھے ماحولیاتی آلودگی نے اس شہر بے کمال و بے مثال سے جگنوبھی چھین لئے اور شاعروں نے بھی اپنی شاعری میں جگنوئوں کا ذکر کرنا چھوڑ دیا۔پچھلے دنوں ہم رات کے وقت لارنس گارڈن گئے، گھومے پھرے مگر ہمیں کوئی جگنو نظر نہ آیا کبھی لارنس گارڈن میں بے شمار شہد کے چھتے ہوتے تھے اب وہ صورتحال نہیں ۔
لاہوریوں کو اس بوٹینیکل گارڈن کی کیا قدر؟ انہیں کیا پتہ کہ بوٹینیکل گارڈن کتنا اہم اور ان باغات کی کیا اہمیت ہے ویسے تو ایف سی کالج، کوئین میری کالج ،لاہور کالج ،کنیئرڈ کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں بھی بوٹینیکل گارڈنز ہیں مگر گورنمنٹ کالج لاہور کا یہ نباتاتی باغ سب سے خوبصورت اور قدیم ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا یہ بوٹینیکل گارڈن اٹلی میں دنیا کے سب سے پہلے تعمیر کردہ نباتاتی باغ کے ڈیزائن پر تعمیر کیا گیا ہے اس میں 700کے قریب مختلف اقسام کے پودے اور درخت ہیں یقین کریں آپ اس باغ میں جاکر ایسا محسوس کرتے ہیں کہ آپ یورپ کے کسی قدیم اور سلیقے سے تعمیر کئے ہوئے باغ میں پہنچ گئے ہیں باہر کتنی گرمی اور دھوپ ہو، آپ کو یہاں سایہ اور ٹھنڈک ملے گی ویسے اس باغ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں جنات کا سایہ بھی ہے بعض جن تو 1860ء سے یہاں موجود ہیں، یہ بات اس حوالے سے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں باغ کے ہیڈمالی حافظ امین سعید نے بتایا کہ یہاں پر بعض درخت1860ء کے ہیں اور اس نے ہمیں ایک دو درختوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہاں پر جنات بھی ہیں بلکہ ایک مالی نے کچھ وظائف کرکے کسی جن کو قابو کرنے کی کوشش بھی کی تھی الٹا اس کے ساتھ بہت برا ہوا تھا بلکہ مرتے مرتے بچا تھا ویسے تو لاہور میں پرانے سی آئی ڈی (موجودہ اسپیشل برانچ کا آفس) کے آفس میں 1792ء کا درخت موجود ہے جس پر اس کی تاریخ درج ہے اس کی تصویر ہم خود بنا کر لائے تھے، بہت بڑا درخت ہے لاہور میں شاید ہی اتنے تنے اور جڑوں والا درخت ہو ۔
حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس بوٹینیکل گارڈن کے بالکل ساتھ چڑیا گھر اور فر ی میسن ہال ہے، ایک سابق وزیر ا علیٰ کو پتہ نہیں کیا سوجھی اس نے اس تاریخی باغ پر قبضہ کرنے اور اسے فر ی میسن ہال کا حصہ بنانے کا منصوبہ بنا لیا وہ تو ہمیں پروفیسر ڈاکٹر امین الحق خان (بڑے نفیس انسان اور مدرستہ البنات کے صدر اور اولڈ راوین ہیں) نے بتایا کہ اس تاریخی باغ کو مسمار کرنے کیلئے بلڈوزر اور مشینری آ چکی تھی چنانچہ ایک سابق وائس چانسلر نے بلڈوزر کے آگے کھڑے ہو کر کہا کہ اگر کسی نے یہ باغ مسمار کیا تو اس کو میری لاش پر سے گزرنا پڑے گا یہ فلمی مکالمہ کام کر گیاچنانچہ اس تاریخی باغ پر قبضے کا ارادہ موخر کر دیا گیامیہ سابق وزیر اعلیٰ تاریخی گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول کو ایک بنک کو فروخت کر رہے تھے، وہ تو ایک اولڈ ماڈلین نے اس اسکول کو بچا لیا حالانکہ فری میسن ہال کو وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ بنانے کی بجائے اسے نباتات باغ کا حصہ بنا کر یہاںپر لائبریری قائم کرنی چاہئے تھی، لاہور واحد شہر ہے جہاں ایک وزیر اعلیٰ کے چار چار دفاتر ہیں ۔فری میسن ہال لاہور کی قدیم عمارتوں میں سے بہت خوبصورت عمارت ہےاوریہاں لکڑی کاجو کام ہوا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اس خوبصورت عمارت کے بارے میں آئندہ آپ کو بتائیں گے۔(جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور ایپ رائےدیں00923004647998)
مزید خبریں
-
1818میں میری شیلی نے فرینکن سٹائن ناول لکھا کہ کیسے ایک قابل سائنسدان ڈاکٹر فرینکن سٹائن اپنے تخلیق کردہ پتلے...
-
ہمیں اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ یہ کالم شائع ہونے تک اسلام آباد میں حالات معمول پر آجائیں گے اور شہر اور...
-
جس سے چاہوں ہاتھ ملاؤں میری مرضیپھر آنکھوں سے دھوکا کھاؤں میری مرضیتیرے شہر میں اپنی بھی پہچان ہے کافیکچھ...
-
عالمی دہشت گردنیتن یاہو جس تواتر کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہا رہا ہےعالمی برادری کی خاموشی اس کو مزید حوصلہ دے...
-
لاہور کے جنوب مشرق میں ایک چھوٹا سا خوب صورت گائوں پٹھان کے میرا آبائی مسکن ہے۔ میں صبح سیر کیلئے گائوں کی...
-
فلسطین عالم اسلام کا ایک بڑاپیچیدہ مسئلہ ہے۔ جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول، بیت المقدس واقع ہے اورجہاں سے پیغمبر...
-
موازنہ بتاتا ہے کہ نواز شریف کے بجائے قبلہ عمران پر قوم کا زیادہ احسان ہے۔ رہی بات کپتان کے قوم پر احسان یا...
-
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں قائم 5رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63-اے۔ بارے...