ترقی کی ماں !

نعیم مسعود
10 جولائی ، 2022
زندہ ہوتی تو پنجابی میں کہتی ’’پتر ایویں ’جھل کداندا‘ پھرنا اے !‘‘ لیکن ہمیں بھی معلوم ہے، ممتا کے سامنے مروجہ اصولوں اور معروف فارمولوں کی کیا وقعت ہے، اس کا پنجابی میں کہنے کا اردو مطلب ہوتا کہ، ان آوارہ گردیوں میں کیا رکھا ہے گر تحقیق نہیں؟ مگر اس کا کہنا شیریں بیانیوں کا وہ مُرغ و مُتَنجَن ہوتا ہے کہ بس رہنے ہی دیجئے۔ یار ! یہ ہر ماں ترقی ہی کی ماں کیوں بن جاتی ہے؟
گود سے گور تک کا سبق بھی تو وہی دیتی ہے کہ علمی دامن سے چپکے رہنا ہے، بناکر فقیروں کاہم بھیس غالبؔ ... تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں، تو شکایتیں کیسی ؟ جب راقم یہ کہتا ہے کہ امریکہ کو عذابِ الٰہی کے علاوہ کوئی شکست نہیں دے سکتا، تو رقیبوں سے ہم نوا کہتے ہیں چائنہ کم نہیں، روس یہ، روس وہ، جرمنی کی ٹیکنالوجی کی یہ بات اور جاپان کی کمٹمنٹ کی وہ بات۔ میں سنتا رہتا ہوں ، اور وہ امریکی آتش و آہن کے طریقوں اور سلیقوں کو وجہ کامیابی گردان کر مزید سیخ پا ہو جاتے ہیں، تو میں عرض کرتا ہوں ، لوگو! بات امریکی جنگوں اور بموں کی کہانیوں کی نہیں ہے، بات اس کی پانچ ہزار سے زیادہ ان دانش گاہوں کی ہے جہاں محققین قابلِ عمل تحقیق کو رواج اور قوت بخشتے ہیں۔ جب تک امریکہ کی ریسرچ بکتی ہے تب تک امریکہ کو نیست و نابود کرنا دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اور آپ کے ہاں بھی کوئی دیوانگی کے سپنوں سے ہٹ کر جو سائنس و ٹیکنالوجی کے خواب دیکھتے ہیں، امریکہ ان کو بھی بمعہ اہل و عیال ’’اغوا‘‘ کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ پھر آپ ماتم کرتے پھرتے ہوکہ برین ڈرین ہوگیا۔ ایف آئی آر کٹواتے پھرتے ہو کہ، فل برائٹ اسکالر شپ بھی امریکی سازش ہے۔ جب آپ جہاد بالقلم بھول جاؤ ، تحقیق کی ان روایات کو بالائے طاق رکھ دو جو کبھی بغداد کے کوچہ و بازار میں نو من تیل بھی رکھتی تھی اور رادھا کا ناچ بھی ، تو امریکہ سے شکایتیں کیسی ؟
جب آپ کا اپنا قرآن بارہا جہاد کی بات کرتا ہےتو کم از کم آپ کی اپنی جامعات جو آپ کی دانش گاہیں اور محققین کی کمین گاہیں ہیں، وہ عہد حاضر میں یہ فرمان کیوں نہیں سمجھتے کہ، سائنس و ٹیکنالوجی و انجینئرنگ ہی جہاد ہے، اور جہاد بالقلم بھی!
ریاست کے اندر کی ’’سب-اسٹیٹس‘‘، اسٹیٹ کی کامرس، اکنامکس، بائیو ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ ، فارماسیوٹکس اور معاشرتی علوم کو کتنا تیار یا خام مال ایکسپورٹ کرتی ہیں، اسی سے حساب لگ جاتا ہے کہ قوم کا تخیل، خواب، امید اور مفید کس ڈگر پر ہیں۔ کسی قوم کے دماغ خالی ہوں گے تو اس کی جامعات ایکسپورٹ کوالٹی کو رواج کیسے بخشیں گی، اگر جامعات ایکسپورٹ کوالٹی کے معیار اور اعتبار کو جنم اور رُخ نہیں دیں گی، تو کوئی اسٹیٹ سوشل انجینئرز اور سماجی سائنس دانوں کو اسٹیٹ مین کا درجہ کیسے دے گی؟ المعروف گلوبل ولیج ایک اکنامک وار پلیس ہے جہاں جنگ و جدل میں بھی مثبت نفسیات دودھ اور شہد کی نہریں بہاتی ہے، جہاں روشن خیالی بائیولوجیکل وار کے در و دیوار پر بھی ویکسین سازی کے پھول اور بیلیں چڑھاتی ہے، جہاں انسان دوست حرص و ہوس کی جنگ میں بھی جوہری توانائی سے زخم دینے کے بجائے کینسر کا علاج اور کوڑھ کی کاشت کا خاتمہ چاہتا ہے، اور یہ سب جنگل کے سوداگر ملکوں میں ملتا ہے مگر کوئی تو ہو جو ہماری وحشتوں کا ساتھی ہو اور امن کے پیامبروں اور بناؤ کے پیغمبروں کی امت میں سے اٹھ کر جہاد بالقلم کی بات کرے اور نوبل پرائز کے حصول پر نظر رکھے کہ ہم آزادی کشمیر کے پلیٹ فارم پر آن بان اور شان سے کہہ سکیں کہ، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اور ہمارے کہنے کا وزن ہو۔
دو تین ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہاہے، کبھی گارنٹی مانگی جاتی ہے اور کبھی فیٹف سے نکلنے کی تصدیق، اور یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یونیورسٹیاں ریاست کو معیاری جینا مرنا مہیا نہیں کر رہیں اور ریاست یونیورسٹیوں کو لیڈرشپ کے بجائے ’’فیڈرشپ‘‘ دینے کے درپے ہے۔ نہ ایچ ای سی کا چیرمین بغیر سفارش ملتا ہے نہ کوئی شیخ الجامعہ ہم میرٹ پر لانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ پھر کوڑھ کی کاشت نہ ہو، تو کیا ہو؟ پھر جمہوریت کے پھولوں کے بجائے آمریت کے کانٹے نہ ہوں تو کیا ہو؟ لیڈر اسٹیٹس مین کی جگہ حرص و ہوس کا پجاری نہ ہو تو کیا ہو؟
ورنہ ماں ، جو یونیورسل ترقی کی ماں ہے، وہ جو دولت ہم قرض اور مدد کی مد میں مانگتے پھرتے ہیں،ماں نے تو گود ہی میں کان میں پھونک دیا تھا کہ علم بڑی دولت ہے!
امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پلیجرزم کے کانٹوں کے بجائے تحقیق کی نکہتیں ، عرق آمیزے اور فارمولے بکتے ہیں، سو رب بھی عقل اور محنت کو زوال نہیں دیتا، اور رب قبول بھی نعروں کو نہیں ریاستوں کو کرتا ہے۔ ان باتوں کا اظہار جب پچھلے دنوں یونیورسٹی آف پونچھ، راولا کوٹ، آزاد جموں و کشمیر میں کرنا پڑگیا تو حاضرین میں سے جواں ہمت محققین کے چہروں سے وہ پرامید کرنیں پھوٹیں جو ایکوسسٹم کیلئے ضیائی تالیف کا باعث بنتی ہیں۔ ان آفتاب و ماہتاب کے اندر کی تڑپ کی گواہی پرعزم اور متحرک قوتوں کے مالک وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر بھی دیں گے، جو لاہور میں کو تو اسلاموفوبیا کے توڑ اور اوکاڑہ میں ہوں تو تعمیرسازی کے جوڑ میں فکر مند رہتے ہیں، توقع ہے پونچھ کی فضاؤں اور راولاکوٹ کوٹ کی ہواؤں کو لیڈرشپ کی شعاعوں سے منور اور معطر کریں گے ورنہ ہم نے ایسی لیڈر شپ بھی دیکھ رکھی ہے جو اربوں روپے عمارت سازی پر لگا دیتی ہے مگر پی ایچ ڈی کرانے والی کیمسٹری لیب میں سال بھر پانی نہیں ملتا۔ کاش وہ عمارت سازی کے کمیشن کے بجائے تعمیر سازی کی انٹرپرنیورشپ سے کمیشن کی توقع رکھتے!
تحقیق اور محقق کے مابین عشق جبکہ سیاستدان اور جمہوریت کے مابین الفت کا رشتہ کہتا ہے کہ، وہ ماں کبھی نہیں مرتی جو پلنے کیلئے گود اور کھِلنے کیلئے دھرتی مہیا کرتی ہے۔ وہ قدموں تلے جنت رکھنے والی ماں ہو یا ریاست کی شکل میں وسیع اور پاکدامنی والی۔ اگر بلاولوں اور مریموں نے یہ سبق سیکھ لیا تو ہم آبِ حَیات کے کنارے کنارے آباد بصورتِ دیگر ہم بھکاری اور بیماری۔ سبسڈی پر قوم کو کھڑا کرنا معیار نہیں ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر پاؤں جمانا معیار ہے، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے نہیں اسٹیٹ کی منشا پر چلانا معیار ہے۔ ماں ’جھل کدانے‘ کے طنز میں دراصل پاؤں جمانے کی بات کرتی تھی، ماں تو نام ہی ترقی کی نشاندہی کا ہے، تبھی تو ہم کبھی کشمیر تو کبھی پنجاب کی دانش گاہوں سے خیر مانگتے ہیں تو کبھی سندھ، کے پی اور بلوچستان کی درس گاہوں سے!