ہم آج کل اپنے75سال کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہے ہیں۔ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر اس قوم سے ایسے کون سے گناہ سر زد ہوئے کہ یہ سارے اگلے پچھلے حکمران موت کے فرشتے بنے ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم نے وزیراعظم خان کی حکومت گرا کر بھاگتے چور کی جو لنگوٹی پکڑنے کی کوشش کی تھی اب اپنی ہی دھوتی اتروائے بیٹھی ہے۔ ایک ہمارے خان بہادر ہیں جو ہمار ی لُٹیا ڈبونے کے باوجود کسی بھی لمحے چین سے بیٹھنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ کبھی نیوٹرل کو ورغلاتے ہیں ، کبھی اعلیٰ عدلیہ کے دروازے پر جا بیٹھتے ہیں، جب کوئی بات نہیں بنتی تو سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ملک معاشی طور پر تو دیوالیہ ہو چکا لیکن سیاست دانوں نے بھی ذہنی دیوالیہ پن کی انتہا کر دی ہے۔ حکومتی اتحادی ایک بار پھر اپنا اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ کسی کو گورنری نہ ملنے کا شکوہ ہے۔ کوئی دو ٹکے کی وزارت پر رو رہا ہے۔ کوئی مجلسِ قائمہ کی سربراہی نہ ملنے پر تڑپ رہا ہے۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو جھنڈے والی گاڑی کی خاطر جھاڑو لگانے پر بھی آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہمیں تو ساجھے داری کی یہ ہنڈیا کسی بھی وقت بیچ چوراہے ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔ زمینی حقائق کی بنیاد پر صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تو ہماری ہمت جواب دے چکی۔ غریب تو روز ِاوّل سے اب تک قربانی ہی دے رہے ہیںان حکمرانوں نے ہمارے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا ہے۔ اب تو لوگ صرف سانس لینے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔لوگوں میں اتنی بھی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ عید قرباں پر اللہ کی راہ میں سنتِ ابراہیمی ہی ادا کرسکیں۔ بجلی، گیس کے بلوں کے پہلے سے ہی 440 واٹ کے جھٹکے لگا رکھے تھے اب ہر ہر پندرہ روز بعد پٹرول کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافے نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ گھر کا کرایہ ادا کریں تو بجلی ، گیس کے نہ سمجھ میں آنے والے بل ہر ماہ دوگنا اضافے کے ساتھ گھر کی دہلیز پر ہمارا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ کار ،موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے کے لئے جیب میں پیسے نہیں ہوتے۔پھر بھی عوام سر جھکائے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہے جبکہ حکومت کی حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ہر شرط مان رہی ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط دن بہ دن سخت ترین ہوتی جارہی ہیں۔ سرکاری املاک بشمول جی ٹی روڈ کے تمام قانونی حصے ، اسلام آباد ہائی وے، مکران کوسٹل ہائی وے حتیّٰ کہ کراچی پورٹ تک گروی رکھ دی گئی ہے لیکن تا حال آئی ایم ایف ہمیں قرضے کی اگلی قسط دینے کو تیار نہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں کہ چین ایک بار پھر ہماری مدد کو آیا ہے۔ دو ارب ڈالر امداد کی صورت میں اسٹیٹ بینک میں نہ پہنچتے تو ذرا سوچئے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہوتے اور ڈالر کس قیمت پر ہوتا۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دن ہماری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر جب کوئی پاکستان اور سری لنکا کے حالات کا موازنہ کرتا ہے اور مجھ سے رائے پوچھتا ہے تو میرا ایک ہی جواب ہے کہ سری لنکا کی کرنسی ایک ڈالر کے مقابلے میں 288 کی حد چھونے پرٹکے ٹوکری ہوگئی تو آپ کے دیوالیہ ہونے میں صرف 80 روپے کا فاصلہ باقی ہے۔ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہم اس حد کو چھونے جارہے ہیں۔ بے روزگاروں کی نہ ختم ہونے والی قطارسامنے کھڑی ہے۔ کھربوں روپے کے قرضے معاف کروانے والوں کے ساتھ ساتھ ٹیکس چور، نادہندگان، بجلی چوروں سمیت کوئی بھی اپنی جائز ناجائز آمدنی ظاہر کرنے کو تیار نہیں۔ حکمران ہیں کہ ان کے اللے تللے ہی ختم نہیں ہوتے صرف عوام سے قربانی مانگتے ہیں۔ اپنی جیب سے ایک دھیلہ بھی دینے کو تیار نہیں۔ چار دن کی حکومت میں بھی ہر کوئی شاہی خاندان کی مراعات چاہتا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بچانے کی خاطر اتحادیوں، آزادیوں کو عالی شان رہائش گاہیں، نئی گاڑیاں، پٹرول، آمدورفت کے اخراجات تک دیئے جارہے ہیں۔ قومی خزانے میں ہمارا اپنا ایک دھیلہ نہیں لیکن حالت یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب معاونین کی خصوصی تقرریوں کے نام پر اپنوں کو نواز رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کی حالت یہ ہے کہ 8 صوبائی وزراءکو نئی گاڑیوں کی چابیاں تقسیم کرنے کے لئے باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی، بتایا جارہا ہے کہ 22 جولائی کے بعد اگر حمزہ حکومت برقرار رہی تو دوسرے مرحلے میں صوبائی وزراءاور مشیروں کو38نئی گاڑیاں دی جائیں گی۔ دوسری طرف پنجاب میں مالی حالات سے مجبور تقریباً 20 لاکھ بچے اسکول چھوڑ چکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگست تک یہ تعداد سوچ سے کئی گنا زیادہ ہو جائے گی۔ جائیں تو جائیں کہاں، ہم وزیراعظم خان کی حکومت میں کیڑے نکال رہے تھے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 2019-20 ءمیں جو معاہدہ کیا تھا، ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں کہ جب ارسطو وزیر خزانہ اسد عمر سے بات نہ بنی تو وزیراعظم خان کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ساتھ خود مذاکرات کرنا پڑے اور ہمیں یہ نوید سنائی گئی کہ وزیراعظم خان نے کڑی شرائط پریہ معرکہ سر کرلیا ہے۔ اب پاکستان مشکل صورتِ حال سے نکل آئے گا۔ اب یہی بات یہ کہہ رہے ہیں ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اب آپ کے پاس آئی ایم ایف کو دینے کے لئے بچا ہی کیا ہے؟ سی پیک یا کچھ اور........
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور ایپ رائےدیں00923004647998)
مزید خبریں
-
1818میں میری شیلی نے فرینکن سٹائن ناول لکھا کہ کیسے ایک قابل سائنسدان ڈاکٹر فرینکن سٹائن اپنے تخلیق کردہ پتلے...
-
ہمیں اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ یہ کالم شائع ہونے تک اسلام آباد میں حالات معمول پر آجائیں گے اور شہر اور...
-
جس سے چاہوں ہاتھ ملاؤں میری مرضیپھر آنکھوں سے دھوکا کھاؤں میری مرضیتیرے شہر میں اپنی بھی پہچان ہے کافیکچھ...
-
عالمی دہشت گردنیتن یاہو جس تواتر کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہا رہا ہےعالمی برادری کی خاموشی اس کو مزید حوصلہ دے...
-
لاہور کے جنوب مشرق میں ایک چھوٹا سا خوب صورت گائوں پٹھان کے میرا آبائی مسکن ہے۔ میں صبح سیر کیلئے گائوں کی...
-
فلسطین عالم اسلام کا ایک بڑاپیچیدہ مسئلہ ہے۔ جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول، بیت المقدس واقع ہے اورجہاں سے پیغمبر...
-
موازنہ بتاتا ہے کہ نواز شریف کے بجائے قبلہ عمران پر قوم کا زیادہ احسان ہے۔ رہی بات کپتان کے قوم پر احسان یا...
-
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں قائم 5رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63-اے۔ بارے...