سو یونٹ کے اثرات

ڈاکٹرصغرا صدف
10 جولائی ، 2022

جب کبھی کسی جمہوری رہنما کی طرف سے جمہور کے حق میں کسی سہولت کا اعلان سنتی ہوں تو خیر کے کلمات کا وِرد ازخود شروع ہو جاتا ہے۔ دعائیں میرے اردگرد خوشبو کی طرح بکھر جاتی ہیں۔ جمہوریت پر میرا یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے اور سیاست واقعتاً خدمت دکھائی دینے لگتی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے آئی ایم ایف کے مطالبات کے جواب میں اشیائے ضروریہ، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مجھے ہمہ وقت کم آمدنی والے ہم وطنوں کی پریشانی لاحق رہی ہے۔ سوچتی تھی کوئی جادوئی وِرد ہو، وظیفہ یا کوئی ریاضت جس کے عوض میں اپنے لوگوں کے لئے سُکھ کا سانس طلب کر سکوں کہ میرے جیسے حساس لوگوں کو زندگی کی تمام سہولتیں میسر بھی ہوں تو اردگرد کے دُکھ انہیں دُکھی کر دیتے ہیں۔ اگرچہ بدحال معیشت کے سبب مستقبل قریب میں کوئی حل نظر نہیں آتا تھا مگر پھر بھی اُمید کا دیپ روشن تھا، آس کی کھڑکی تازہ جھونکے کی آمد کے حوالے سے پراُمید تھی اور خواب کا منظر نامہ بھی مایوس نہیں تھا کہ کوئی بھی جمہوری رہنما عوام کی اس قدر بے بسی پر لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ وہ کچھ نہ کچھ ضرور ایسا کرے گا کہ نمناک آنکھیں مُسکا اُٹھیں، مایوس دل شادمان ہوں اور لوگوں کا ملک اور قیادت پر اعتماد پھر سے بحال ہو۔ پھر وہ اعلان ہوا تو مجھے میرے یقین کی سند مل گئی۔ یکے بعد دیگرے ایسی مثبت خبریں ملیں جن کا سو فیصد فائدہ سب سے کم آمدنی والے طبقات کو ہو رہا تھا۔ پنجاب میں سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لئے بہت بڑی خوشخبری تھی۔ ایک گھر میں چھ سات اے سی، ٹی وی، فریج اور دیگر سہولتیں استعمال کرنے والوں کے لئے شاید یہ فیصلہ مذاق ہومگر پنجاب کی تقریباً نصف آبادی سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے جن کے لئے مہینے کے آخری ایام میں وہ بل بھی مشکل کا پہاڑ بن جاتا ہے۔ ایسے میں انہیں مکمل طور پر فری بجلی دینے کے اعلان سے تنہائی میں ابھرنے والی آہیں خوشی کا نعرہ بن کر فضا میں بکھر گئیں اور ان چہروں کی شادمانی نے پورے ماحول کو مسرور کر دیا کہ اجتماعی مسرت تو سب کی شادمانی ہی میں ہے۔ پنجاب وہ سرزمین جہاں زندگی نے آنکھ کھولی اور اس کی ہریالی اور زرخیزی نے دنیا کے مختلف حصوں کے لوگوں کو اپنی جانب یوں کھینچا کہ وہ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ آج کل وہ امارت کہاں غائب ہو گئی؟ وہ فصلیں، میوے، سبزیاں، مکھن، دودھ اور سبزہ مفقود ہوتا جا رہا تھا جو اس دھرتی کی پہچان تھا۔ وجہ یہ کہ چھوٹے کاشتکاروں میں بجلی اور دیگر لوازمات برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔ میں سوچتی تھی ہمسایہ ملک کا چھوٹا سا پنجاب پورے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے اور ہم صرف ہائوسنگ کالونیاں بنائے جا رہے ہیں مگر یہاں بھی مایوسی کی حد آنے سے پہلے امید جاگ اُٹھی اور ٹیوب ویلوں کو مفت سولر پینل مہیا کرنے کا اعلان بھی سامنے آ گیا۔ اس کے ساتھ ہی ٹریکٹروں پر سیلز ٹیکس معاف کر کے مندمل زرعی نظام کو استحکام بخشنے کی تدبیر کی گئی۔ یقیناً پانی کی کمی کے شکار پنجاب میں سولر پینل کی سہولت کاشتکاروں کو نئی زندگی کی نوید جیسی ہے۔ اس سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور درآمدات میں کمی کے باعث ملکی معیشت بھی بہتر ہو گی۔ کم آمدنی والے خاندانوں کو مفت سولر پینل مہیا کرنے کا اعلان بھی بہت خوش آئند ہے۔ یہ ایک مستقل حل ہے جس کا بوجھ حکومت کو ماہانہ بلوں کی صورت میں ہر ماہ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ صرف ایک بار اس منصوبے پر اخراجات ہوں گے۔ یاد رہے سو یونٹ کے اعلان کے پسِ پشت ایک بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔ جو لوگ ڈیڑھ دو سو یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں اب وہ بھی بجلی کے استعمال میں مزید احتیاط کریں گے اور اسے سو یونٹ کے اندر رکھنے کی کوشش کریں گے جس سے بجلی کی کھپت میں کمی واقع ہو گی۔ یہ وہ دائمی حل ہے جس پر فوری عمل کی ضرورت ہے۔ اس سے بجلی کی جو بچت ہو گی وہ بڑے کارخانوں اور منصوبوں میں استعمال ہو گی اور ملکی ترقی میں معاون کردار ادا کرے گی۔ صاحبِ استعداد افراد کو گھروں میں سولر سسٹم نصب کرنا چاہئے کہ اس وقت یہ بھی ملک سے محبت کی ایک مثال ہو گی۔ امید ہے اس طرح کے اقدامات سے پِسی ہوئی مخلوقِ خدا سُکھ کا سانس لے گی اور جمہور کے سُکھ کا سانس سیاسی رہنمائوں کی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔