اداروں نے ن لیگ کی حکومت کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا،جاوید لطیف

29 جولائی ، 2022

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ اداروں نے ن لیگ کی حکومت کو کبھی دل سے قبول نہیں کیااور رکاوٹیں جاتی رہی ہیں۔ ہمیں ان کی بات نہیں سننا چاہئے تھی ہمیں فوری طور پر الیکشن میں چلے جانا چاہئے تھا، صدرسپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز اسی طرح ہے کہ میٹنگ کو التوا کیا گیا، سینئر صحافی و تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ کسی نے پستول رکھ کر حکومت لینے پر مجبور نہیں کیا تھا،تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا کہ اب یہ تاثر دینا کہ ہم سیاسی شہید ہیں درست نہیں ہے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام” آپس کی بات “میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کررہے تھے۔ وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ پہلے تو دیکھنا یہ چاہئے کہ ہم حکومت میں آئے کیوں اور جس مقصد کے لئے آئے کیا وہ مقاصد پورے ہوئے ہیں۔یہ بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ اگر یہ سال اور حکومت کر جاتے یہ سارا ملبہ اور گند ان کاہمارے کاندھوں پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کسی حد تک پڑ بھی گیا ہے 17 جولائی کا فیصلہ یہ بتا رہا ہے کسی صورت نہ یہ ملبہ ہم اٹھاتے تو ہم نے یہ سیاسی خود کشی کیوں کی۔ وجہ یہ تھی کہ جب ہمیں یہ بتایا جارہا تھااور جو ہم دیکھ بھی رہے تھے کہ پاکستان کے معاشی حالات انہوں نے کس قدر بگاڑ دیئے ہیں۔آپ کا سوال یہ اٹھے گا کہ ہم نے کون سے تین ماہ میں کنٹرول کرلئے نہ ہم نے کنٹرول کرسکے اور نہ درست سمت میں لے کر جاسکے۔ لوگ ہم سے سوال بھی کرتے ہیں اور لوگوں نے17جولائی کو اپنا رد عمل بھی دیا جو کہ ہم نے دیکھا۔یہ ہم نے قبول کیوں کیا اور یہ ملبہ جو ہم پر بائی ڈیزائن ڈالا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اداروں نے کبھی بھی مسلم لیگ ن کی حکومت کو دل سے قبول نہیں کیا اور رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں۔ ہمیں ان کی بات نہیں سننا چاہئے تھی ہمیں فوری طور پر الیکشن میں چلے جانا چاہئے تھا۔ سینئر صحافی و تجزیہ کارزاہد حسین نے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ میاں صاحب کو اپنی پارٹی سے سوال کرنا چاہئے تھاکہ جب اقتدار لیا تھا تو کیوں لیا تھا مطلب یہ کہ بچے تو نہیں تھے۔پہلے تو آپ نے کہا کہ جمہوریت کی بہت بڑی فتح ہوگئی ہے اور تبدیلی لانا لازمی ہوگئی تھی عمران خان کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔نہ صرف حکومت لی بلکہ آپ ہی کی پارٹی اور اتحادیوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ مدت پوری کریں گے۔اس کے بعد میرا خیال ہے کہ رونا بنتا نہیں ہے کیوں کہ اس طرح آپ مزید عدم استحکام پیدا کررہے ہیں۔آپ کے پاس نہ کوئی پلان ہے نہ ہی آپ اس بات کے لئے تیار ہیں کہ الیکشن میں جائیں ۔ اگر آپ کو ڈیڑھ سال تک حکومت کرنی تھی تو اس کے لئے فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور کرنا چاہئے تھے ۔اب آگے بڑھنا چاہئے آپ کو کسی نے پستول رکھ کا مجبو رنہیں کیا تھا کہ حکومت لیں۔ سینئر تجزیہ کار اطہر کاظمی نے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ انہو ں نے ٹرین مس کردی ہے اب یہ کہیں کہ ہم کوئی سخت بیانیہ لیں گے اور وہ بیانیہ عوام میں مقبول ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہوتا آپ کو بیانئے کو عوام کے ساتھ جوڑنا پڑتا ہے ۔ عمران خان کا بیانیہ صحیح ہے یا غلط ہے اس نے ایک بیانیہ بنایاکہ میں گیا ہوں تو پاکستان کی خود مختاری پر سوال آگیامیں گیا ہوں تو عوام کے حقوق پر مسئلہ بن گیاپاکستان کی معیشت کا مسئلہ بن گیا۔ دوسری طرف جو بیانیہ ہے وہ ذاتی بیانیہ ہے اپنا ذاتی نوحہ آپ کو سناتے ہیں کہ ہم پر یہ ظلم ہوگیاہمارے ساتھ یہ ہوگیا جب تک یہ بیانئے کوعوام کے ساتھ نہیں جوڑیں گے ۔ یہی چیز عدلیہ کے حوالے سے بھی ہمیں نظر آرہی ہے عدلیہ کے اوپر بھی آپ نے جب تنقید شرو ع کی جب آپ کے خلاف ایک مقدمے میں فیصلہ ہوا۔یہاں پر یہ تاثر جاتا ہے کہ آپ اشرافیہ کے تحفظات کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی مشکلات ہیں تو وہ ان کے اپنے فیصلے ہیں انہوں نے وفاق میں بالکل حکومت نہیں چھوڑنی کیوں کہ ان کے جو مقاصد تھے وہ انہوں نے حل کرلئے ہیں ۔ جو قوانین جن میں یہ تبدیلی کرنا چاہتے تھے چاہے وہ الیکشن کے حوالے سے ہوں اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے ہوں ای وی ایم کے حوالے سے ہوں اور نیب قوانین ہوں وہ سب کچھ انہوں نے کرلیا ہے۔اب یہ تاثر دینا کہ ہم سیاسی شہید ہیں درست نہیں ہے۔ صدرسپریم کورٹ بار احسن بھون نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو ہماری اطلاعات ہیں اور جو کچھ ہم نے سوشل میڈیا پر بھی دیکھا ہے شاید جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس کے حوالے سے آیا ہے ۔ ہمارے ذرائع کے مطابق وہاں التوا کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا اور یہ باتیں اب سامنے بھی آ رہی ہیں ۔ سپریم کور ٹ کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے وہ اسی طرح ہے کہ میٹنگ کو التوا کیا گیا۔جسٹس سرمد عثمانی سے میری بعد میں گپ شپ ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میٹنگ کو اس طرح ختم نہیں ہونا چاہئے تھا۔عوامی تاثر یہ ہے کہ حکومت کی آرم ٹوئسٹنگ کی گئی ہے جبکہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہونی چاہئیں۔جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے متعلق وزیر قانون اور بار کے نمائندوں سے بات ہوئی۔وزیر قانون اوربارکے نمائندوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کی تصدیق کی۔جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کی نامزدگی سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کی تصدیق کی گئی۔حکومت اور بار کے نمائندوں نے وکلا تنظیموں کے مطالبے کی تائید کی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان منیب فاروق نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد تابڑ توڑ حملے کئے گئے ۔مریم نواز نے جو باتیں پہلے ٹوئٹ میں لکھی تھیں آج انہوں باقاعدہ طور پرمعزز جج صاحبان اور سپریم کورٹ پر فیصلے کے حوالے سے کڑی تنقید کی۔ن میں سے ش نکلنا تھایہاں ق میں سے ش نکل گیا یعنی چوہدری شجاعت اپنی ہی پارٹی میں سے بحیثیت صدر فارغ ہوگئے۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ چوہدری شجاعت حسین صحت ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہورہی ہے۔چوہدری خاندان کے لئے ایک بدقسمت پیش رفت ہے کیوں کہ سیاسی وضع داری چوہدری خاندان میں رہی ہے اور یہی اس خاندان کی پہچان رہی ہے لیکن سیاسی وجوہات کی بناء پر اس نہج پر آنا بھی بہت افسوسناک ہے۔