عدالتی اصلاحات کا فیصلہ

اداریہ
29 جولائی ، 2022

بدھ کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدالتی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کے فیصلے اور قومی اسمبلی میں اسی مقصد کیلئے ایک قرار داد کی متفقہ منظوری سے واضح ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد اس باب میں یکسو ہے۔ عدلیہ ہو یا کوئی دوسرا شعبہ، قوانین کو وقت کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کا ہمیشہ متقاضی رہتا ہے۔ جبکہ وطن عزیز کے کئی قوانین برٹش انڈیا کے دور میں بنے ہونے کے باعث اگر تبدیلیوں کے مرحلے سے گزرے ہیں تو بھی ان کا دنیا بھر میں رونما ہونے والے متعدد واقعات کے تناظر میں نئے سرے سے جائزہ لینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ کرہ ارض میں تیزی سے رونما ہونے والی مختلف تبدیلیوں ،سائنسی ایجادات، نئے علوم اور ٹیکنالوجیز کےچلن اور سماجی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث پرانے قوانین کی جگہ نئے قوانین کا وضع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے عمل دخل سمیت سماجی زندگی میں آنے والی بعض تبدیلیوں کے تناظر میں اگرچہ ہمارے عدالتی نظام میں بھی بعض تبدیلیاں آئی ہیں مگر مزید تبدیلیوں کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار اور بنچ کی تشکیل کے طریق کار سمیت کئی امور پر توجہ کے باب میں ایک نمایاں آواز پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر کے ٹوئٹر پیغام کی صورت میں26 جولائی کو سامنے آئی۔ قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی کی رولنگ سے متعلق کیس کی سماعت کیلئے فل بنچ قائم کرنے کی تجویز مسترد کر دی گئی تھی۔ اتفاق سے اسی رات چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا فیصلہ بھی سامنے آ گیا۔ پی پی پی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سامنے ججز تقرریوں، پروموشنز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی تھی جس سے ملتی جلتی تجاویز و کلا تنظیموں کی جانب سے بھی بدھ کے روز سامنے آئیں۔ بدھ کے روزو فاقی کابینہ کے اجلاس میں اس باب میں قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا ۔جبکہ اسی دن قومی اسمبلی نے اپنے نئے سیشن کے پہلے روز کے اجلاس میں متفقہ قرارداد کے ذریعے واضح کیا کہ عدالتی اصلاحات کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی پیش کردہ قرارداد کی قومی اسمبلی میں موجودہ قلیل اپوزیشن نےبھی حمایت کی۔اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے زور خطابت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوجی حکومتوں کو جائز قرار دیاگیا۔ ملک میں جمہوریت کی موجودہ کیفیت کے حوالے سے بھی تیر وتفنگ چلائے۔ قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی صورتحال پر مبنی طویل تقریر میں شکوہ کیا کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ طرز عمل میں دہرا معیار محسوس ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں کرپشن کے کئی اسکینڈلز پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ انہوں نے سوال کیا کہ فارن فنڈنگ کیس پر آٹھ سال گزرنے کے باوجود کیا کوئی سوموٹو نوٹس لیا گیا ؟مبصرین اس ساری صورتحال کو مختلف منفی اور مثبت زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔اگرچہ حکمراں اتحاد وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے درخواست کی سماعت کے موقع پر فل بنچ کی تجویز رد ہونے پر شدت سے شاکی ہے۔ مگر ارکان پارلیمان کوعشروں پر محیط ماضی کے بعض ایسے واقعات کا بھی شکوہ ہے جنہیں وہ دبائو سے تعبیر کرتے ہیں۔انہیں کئی جمہوری ملکوں کی طرح مشترکہ مشاورتی کمیٹیوں کے ذریعے اگر وطن عزیز میں بھی قانون سازی کی اجازت دی جائےتو کئی اہم معاملات میں ہم آہنگی کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس آئینی ترامیم کے لئے دو تہائی اکثریت نہیں۔ لیکن اگر جمہوریت اور انصاف کے مفاد میں حکومت، پی ٹی آئی اور عدلیہ کی مشاورت سے کوئی زیادہ فعال مکینزم بننے کا امکان پیدا ہو تو اس پر غور کر لینے میں ہرج نہیں ہونا چاہئے۔