ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان کس کا ؟

ایس اے زاہد
29 جولائی ، 2022
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان سے سیاست ختم ہو رہی ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ سیاست کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ اخلاقیات اور اقدار ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ’’سیاسی رہنما‘‘ نہ تو سیاست کے اصول مدنظر رکھتے ہیں اور نہ ہی اخلاقیات اور اقدار کا پاس کرتے ہیں۔ سیاست میں کافی عرصہ سے خدمت کے بجائے مفادات کا دخول ہوا ہے لیکن گزشتہ چند سال سے اس میں ذاتی انتقام اور انا کے شامل ہونے سے سیاست دشمنی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس سیاسی لڑائی کو سیاست دان جانیں لیکن کوئی تو حد ہونی اور رکھنی چاہئے کہ ملک و قوم کا نقصان نہ ہو۔ موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ہاتھیوں کی اس جاری لڑائی میں معلوم نہیں کس کا فائدہ ہوگا کس کا نہیں ہوگا لیکن ملک و قوم کا زبردست نقصان ضرورہو رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر ایک کی نیندیں ملک و قوم کے غم میں حرام ہو چکی ہیں، جو سراسر جھوٹ اور منافقت ہے۔ حقیقت میں ہر ایک قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو جس کی حکومت ہو اس کو مدت کیوں پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش یہ نہیں تو اور کیا ہے کہ حزب اختلاف حزب اقتدار کے بارے میں گمراہ کن الزامات تراشتی اور قوم کو حزب اقتدار کے خلاف کرنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے۔ پھر وہی حزب اقتدار جب حزب اختلاف اور وہی حزب اختلاف برسر اقتدار آجاتی ہے تو دوسرا فریق وہی رویہ اور طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ اب تو قوم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آتا کہ صحیح کون ہے اور غلط کون ہے۔
ماضی قریب کو دیکھ لیں جب عمران خان برسر اقتدار تھے تو انہوں نے چور اور ڈاکو کی اتنی گردان کی کہ قوم کے کان پک گئے اور وہی گردان اب بھی جاری ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ کیس بنائے گئے، ان کو جیلوں میں ڈالا گیا، خواتین تک کا لحاظ نہ کیا گیا۔ انتہائی حد تک اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کیا گیا۔ حکومتی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی برائے اصلاح کرنے اور سچ بیان کرنے اور لکھنے والے صحافیوں اور میڈیا ہائوسز کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ الزامات لگائے گئے۔ کیس بنائے گئے۔ پابند سلاسل کیا گیا۔ ایسے صحافیوں کو بے روزگار کیا گیا۔ لیکن نہ تو سیاسی مخالفین اور نہ ہی ایسے صحافیوں کے بارے میں کوئی لگایا گیا الزام ثابت ہو سکا۔ کیونکہ الزام لگانے والے بھی جانتے ہوں گے کہ یہ بے بنیاد الزامات ہیں لیکن محض ان کو زچ کرنے اور ذہنی، مالی و جسمانی اذیت دینا ہی مقصود ہوتا تھا اور وہ کیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے تقریباً ساڑھے تین ماہ ہو چکے اس عرصہ میں عمران خان اور ان کی سابقہ حکومت پر مالی بدعنوانیوں کے متعدد الزامات لگائے گئے۔ آئین کی خلاف ورزی کا شور کیا گیا۔ لیکن ابھی تک عمران خان کے خلاف ان میں سے ایک مقدمہ بھی درج نہیں کیا جا سکا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بے بس ہے۔ کس نے ان کو بے بس کیا ہے یہ کوئی نہیں بتاتا۔ فوج کا تو دونوں فریق یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہے۔ تو کیا پھر عدلیہ نے بے بس کیا ہے۔ یہ تو عام فہم بات ہے کہ عدلیہ کا کردار تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب ان کے سامنے کوئی پیش ہو جائے اور اگر موجودہ چند مقدمات میں حکومت کے ناپسند فیصلے عدلیہ کی طرف سے آئے اور ان پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اعتراض کیا یا ناپسند کئے تو یہ سب کا حق ہے لیکن اسی عدلیہ اور ان ہی جج صاحبان نے اسی دوران عمران خان کے خلاف ایک بڑا فیصلہ دیا اور اس فیصلہ پر کارروائی کا اختیار پارلیمینٹ کو دیا گیا۔ پھر حکومت نے کیوں کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس فیصلہ پر ان ہی دو جماعتوں نے کیوں کہا تھا کہ عدلیہ نے انصاف کا بول بالا کیا اور آج تاریخی دن ہے۔ یہی کام پی ٹی آئی بھی کرتی ہے۔ مرضی کے فیصلے منظور اور من پسند فیصلے نہ ہوں تو نامنظور۔ کیا اس طرح ریاست چل سکتی ہے۔
صدر ایوب خان اور کسی حد تک ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جو حکومت آئی اس نے سابقہ حکومت پر الزام لگایا کہ وہ تو خزانہ خالی کر کے گئے ہیں۔ اس لئے مشکلات ہیں اور اب قرضے لینے پڑیں گے۔ جبکہ سابقہ والے کہتے ہیں کہ ہم تو بھرا ہوا خزانہ چھوڑ کر گئے تھے۔ ایسی صورتحال میں قوم بیچاری کو کیا پتہ کہ دونوں میں صحیح کون ہے اور غلط کون ہے۔ وہی طریقہ جو سابق حکومت نے بھی اختیار کیا عین وہی طریقہ موجودہ حکومت نے بھی اختیار کر رکھا ہے۔ وزیراعظم شہبار شریف نے تو خود فرمایا ہے کہ ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ ملکی خزانہ خالی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ انہوں نے صرف ملک بچانے کیلئے اپنی سیاست کی قربانی دے کر وزارت عظمیٰ قبول کی اور ملک کو بچالیا۔ یہ سب کیا ہے ملک تو اللہ کریم کے فضل سے بچا ہوا ہے اور بچا رہے گا۔عوام کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ آگے پتہ نہیں کیا ہوگا۔
پنجاب کی چند ماہ کی وزارت اعلیٰ کیلئے دونوں فریقوں نے سیاسی، آئینی اور اخلاقی شیرازہ بکھیر دیا بلکہ ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس میں پنجاب کے عوام بھلائی کہاںہیں۔ ہاتھیوں کے مفادات کی اس لڑائی نے بے حال عوام کو کچل کے رکھ دیا ہے۔ پنجاب میں بیورو کریسی بھی بے حال ہو چکی ہے۔ دس دن میں کون کہاں بھیجا جاتا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سابقہ حکومت کے یہ دوہی تحفے ہیں۔ موجودہ والوں نے تو عوام کا بھرکس نکال دیا اور ہاتھیوں کی لڑائی ہنوز جاری ہے۔سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ورنہ بچھتائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)