غیرت کو طاق پر رکھو

کشور ناہید
29 جولائی ، 2022

کہاں ہو احمد فراز اور انتظار حسین۔ ’’آئو دیکھو ہمارے ملک میں محرم سے پہلے محرم ، میرے سر میں خاک ڈالو۔ یہ پسپائی نہیں، شکست نہیں، بے غیرتی نہیں، سیاست کے نام پہ آنکھوں میں دُھول، ملک کا مذاق اڑا رہی ہے، مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔‘‘ کوئی مجھے بتا رہا تھا پاکستان کی آزادی کی75ویں سالگرہ کا، مگر کیا سالگرہ ایسے منائی جاتی ہے۔ ان 398میں کسی کی ماں نہیں، پنجاب کی ماں۔ جو اُٹھتی اور بیٹے کے منہ پر تھپڑ مارتی، اپنے کپڑے پھاڑتی، ڈوب مرتی، مگر یہ تو وہ بھیڑ بکریاں ہیں معاف کیجئے، بھیڑ بکریوں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے اور وہ تو معصوم ہانکی جاتی ہیں۔ ایک کتا اس ریوڑ کے آگے اور ایک پیچھے ہوتا ہے۔ انکی نگرانی کرتا ہے۔ یا شیخ یہ کون لوگ ہیں۔ شیر تو اپنا شکار خود کرتا ہے۔ اس کا پیٹ بھرجائے تو وہ کسی طرف منہ کئے بغیر آرام کرتا ہے۔ یہ کیسے سپوت ہیں۔ ان کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ ملک کودیوالیہ کردیا۔


اے بی بی ! تم جمہوریت کے نام پر ساری عمر واویلا کرتی رہیں۔ بس پلٹ کر دیکھو ۔ مارشل لا لگ رہا ہو، یہ قوم مٹھائیاں تقسیم کرتی نظر آتی نہیں رہی۔؟ بھٹو کو پھانسی لگی تو کون باہر نکلا ، بس غریب مرد، عورتیں !ملک دو ٹکڑےہوا، لوگ مال روڈ پر کھڑے آئس کریم کھارہے تھے۔ اے بی بی ! یہ وہی قوم ہے کہ جن کے گھر کسی کے مرنے پہ لوگ قلوں کے چاولوں میں بوٹیاں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ جہاں بوڑھے ماں باپ کو جائیداد ہتھیانے کیلئے جان سے مار دینا، عین دانشمندی گردانی جاتی ہے۔ جہاں بہن وراثت میں حصہ مانگے تو ماردی جاتی ہے۔


میں چیونٹی جیسی آسمان سر پہ اٹھانے کا دعویٰ کرتی، شرم سے ڈوب نہیں مرتی کہ میری جواں سالہ لائق وکیل بیٹی ریما عمر، اعلیٰ عدالت سے جواب طلب کررہی ہے کہ پارٹی ہیڈ کا آرڈر چلتا ہے کہ پارٹی کے معتمدکا، اس ملک میں منٹو نے صحیح لکھا تھا کہ جو چاہے سفید کو سیاہ اورسیاہ کو سفیدکرسکتا ہے۔


مجھےمحمد حنیف اورو سعت اللہ خان! اپنا سر گھٹنوں میں دیکر بتائو! میں واہی تباہی کیوں بکتی رہتی ہوں۔ غلط کہا گیا یہ قوم جذباتی ہے۔ بھلا قوم کو کون پوچھتا ہے ۔ناظم الدین کو وزیر اعظم کی کرسی سے اتار دیاجاتا ہے۔ یہ قوم ایک سڑک کا نام اسکو بخش کر کیا کہوں، ’’فخر کرتی ہے‘‘۔ ہمارے خود ساختہ لیڈر وہ اپنے منہ میاں مٹھو بنے رہنما، قبر میں پائوں لٹکائے، قوم کو ہانکتےرہتے ہیں اور قوم گیدڑ کی اولاد بن جاتی ہے۔ جو کوئی لکھ دے اس کو سچ وہی نہیں مانتے، اب تو انصاف کا ترازو بھی، اس سیاہ آندھی میں دھندلا گیا ہے۔اور تو اور، خود ساختہ ماہرین کا گروہ ،جو خود کوmotirationalمقرر اور ماہرین نفسیات کہتے ہیں، الٹا سیدھا فلسفہ جھاڑتے وہ بھی مذہب کے دعویداروں کے ساتھ میڈیا پہ جلوہ گرہیں۔ ہمارے محلے کا پنساری، میڈیا پہ آنے والے ماہرین معیشت سے بہتر تجزیہ کرتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔ سڑک پر گاڑیاں صاف کرنے والا خوب جانتا ہے کہ قومی سطح پرکیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ترکی جیسا ملک ایران اور سعودی عرب کے درمیاں مفاہمت کروارہا ہے۔ہم سے تو دہشت گرد نہیں سنبھالے جاتے جو آئے روز ہمارے جوانوں کو لاپتہ افراد بناکر زیارت میں شہید کردیتے ہیں۔ اکثر شمالی علاقہ جات میں سات سال سے روز انکی بارودی سرنگیں پکڑی جارہی ہیں۔ وہ پکڑے اور مارے بھی جارہے ہیں۔ کوئی دن ہو جو ایسا سانحہ نہ ہو۔ خون کے گھونٹ پینا اور کیا ہوتا ہے، تعلیمی اداروں کی روزبروز ابتر صورت حال اور غلط نصاب، ہماری نئی نسلوں کو کیا سکھا رہا ہے۔ کسی سیاستدان کو خبر ہے یا تشویش ہے۔ عورتوں کے لئے بے حیائی کے لفظ کی ادائیگی ، اکثر پروگرام کا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتیاں، ان کی زبان نہیں کھلتی ، رہے نام اللہ کا۔


پاکستان کیلئے قابل فخر، انگریزی میں ناول لکھنے والے محسن حامد کا نیا نا ولthe last white man


ساری دنیا میں زیر بحث ہے۔ اسکے علاوہ انگلینڈ میں نئے وزیر اعظم کے لئے دوسیاست دان، لمبی امید واروں کی فہرست میں سے شارٹ لسٹ کیے گئے ہیں، جو عمران خان کی طرح لمبی نہیں چھوڑ رہے ۔ وہ ملک کے کونے کونے میں غریبوں کو بلاوجہ بے آرام کرکے اپنا رٹا رٹایا سبق نہیں دہر ارہے ۔ کیا ہمارے ملک میں مقامی کونسلوں سے لیکر اوپر تک چیک کرنے والا ایسا سسٹم نہیں ہوسکتا کہ ایک پوسٹ کے لئے ایک ہزار امیدوار اور ان میں بھی اسمگلر اور پراپرٹی ڈیلر شامل نہ ہوں۔ ہمارے ملک میں تو ہر جگہ بولی لگتی ہے۔ اس دیمک نے ملک کو چاٹ لیا ہے۔


اُدھر انڈیا میں اڑیسہ کی64سالہ خاتون دروپدی مرو، ملک کی صدر منتخب ہوگئی ہے۔ وہ ایک دم پاکستان کی طرح امپورٹ نہیں کی گئی۔ اس نے مقامی کونسل سے گورنر شپ کا سفر طے کیا اور اب ہماری عورتوں کی طرح زیورات اور میک اپ سےلدی پھندی نہیں۔ کاٹن کی ساڑھی پہنے حلف لے رہی ہے۔


اس مہینے پارلیمنٹ کے چار سال مکمل ہوجائینگے کوئی بتائے، کتنے سیشن ہوئے، کتنے نئے بل، سوائے اپنے لیے مراعات کے، اسمبلی میں پیش ہوئے، کتنے نئے پروجیکٹ بنے اور پایۂ تکمیل کو پہنچے۔کتنے لوگوں نے کہا ’’ہم نے کوئی کام نہیں کیا، ہم نے تنخواہیں نہیں لینی۔ کوئی بھی تو قائد اعظم کاپیروکار نہیں۔ صبح شام سنتے ہیں جیتیں گے ہم جیتیںگے، حفیظ جالندھری کے قومی ترانے کے علاوہ آپ کے پاس کیا ہے، ابن انشا کی جھولی میں پہلے بھی سوچھید ہوئے تھے۔ اب نہ کوئی داراشکوہ ہے، نہ بلھے شاہ جوالف درکار کا نعرہ مستانہ مارتے ہوئے بولے کہ عابدہ پروین سنا سنا کر تھک چکی ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس


ایپ رائےدیں00923004647998)