مہنگائی کے اثرات

مظہر برلاس
29 جولائی ، 2022

پاکستان میں 80 فیصد سے زائد افراد کی اوسطاً آمدنی پندرہ بیس ہزار روپے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رقم سےگزارہ ہوسکتا ہے؟ یقیناً نہیں بلکہ گزارے کے لئے یا تو ادھار لینا پڑے گا یا پھر کوئی اور کام بھی کرنا پڑے گا۔ پچھلے ساڑھے تین مہینوں میں عام آدمی پس کے رہ گیا ہے، لوگوں کی زندگیوں میں ساڑھے تین ماہ نے زہر گھول کے رکھ دیا ہے۔ حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں جہاں عام آدمی پریشان ہے وہاں وہ لوگ بھی پریشان ہیں جنہوں نے معاشرے میں فلاحی ادارے قائم کر رکھے ہیں، ان افراد میں بھی وہ لوگ زیادہ پریشان ہیں جنہوں نے یہ ادارے انتہائی پسماندہ علاقوں میں قائم کر رکھے ہیں، ان علاقوں میں مخیر حضرات کی بھی کمی ہے، رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کردی ہے۔ پس ماندہ علاقوں میں قائم فلاحی اداروں میں سے ایک ادارہ غوثیہ کالج مظفر گڑھ ہے۔ اس ادارے کے پرنسپل محمد طارق چشتی نے ایک خط اس خاکسار کے نام ارسال کیا ہے وہ اس خط میں لکھتے ہیں ...’’ غوثیہ کالج جنوبی پنجاب کے پس ماند علاقے مظفر گڑھ میں قائم ہے اس کالج میں چوتھی جماعت سے لے کر ایم اے تک تعلیم دی جاتی ہے، یہاں 600 سے زائد غریب، یتیم اور نادار طلبا و طالبات زیرتعلیم ہیں، ہم ان طلباء و طالبات کو کتابوں اور یونیفارم کے علاوہ رہائش، تین وقت کاکھانا علاج معالجہ اور سٹیشنری سمیت دیگر سہولیات بالکل مفت فراہم کرتے ہیں۔ یہ تمام سہولیات ان طلبا و طالبات کو اس لئے فراہم کی جاتی ہیں کہ یہ غریب گھرانوں کے چشم و چراغ وسائل نہ ہونے کے سبب تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے تھے ۔ بعض تو سکول اور کالج کا دروازہ بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہم ان طلبا و طالبات کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم کے ساتھ ساتھ علوم شریعہ، حفظ اور ناظرہ کلاسز کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ طالبات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہزاروں طلبا و طالبات معاشرے میں مفید زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے ادارے میں طلبا و طالبات کیلئے الگ الگ کیمپس ہیں۔ تمام تر سہولیات رکھنے والا یہ ادارہ شروع ہی سے مخیر حضرات کے تعاون سے چل رہا ہے۔ آغاز میں کراچی کے ایک بزرگ عبدالرزاق ہماری مکمل سرپرستی فرمایا کرتے تھے، ان کے انتقال کے بعد سابق سیکرٹری تعلیم اور جنگ کے کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود نے ہماری سرپرستی کی۔ ان کے انتقال کے بعدیہ سایہ بھی چھن گیا۔ آج کل صورت حال یہ ہے کہ ہمارا ادارہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہے، مخیر حضرات کو بھی مہنگائی نے اتنا ڈسا ہے کہ ان کی آمدن کم ہوگئی ہے، شاید ان کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں ان میں بھی وہ ہمت نہیں رہی مگر اب بھی معاشرے میں ہمت والے لوگ تو ہیں۔ مالی مشکلات کےسبب چھ سو سے زائد طالب علموں کا مستقبل خطرے میں ہے، ادارے کے بڑے ماہانہ اخراجات میں راشن، تنخواہیں اور بجلی کے بلز وغیرہ شامل ہیں اور یہ اخراجات سات لاکھ سے زائد ہیں، مہنگائی نے اتنا برا حال کردیا ہے کہ جو راشن پہلے ایک لاکھ روپے کا آتا تھا اب وہ ڈھائی لاکھ کاآتا ہے۔ یہ ادارہ یتیموں کا سہارا ہے لیکن فنڈز نہیں ہیں اسی لئے روز بروز پریشانی بڑھتی جا رہی ہے...‘‘


یہ وہ خط تھا جو محمد طارق چشتی نے مظفر گڑھ سے لکھا۔ میری ان سے درخواست ہے کہ آپ یتیموں کے پالن ہار ادارے کے سربراہ کے طور پر قطعاً مایوس نہ ہوں کہ مایوسی گناہ ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چیریٹی کرنے والوں میں پاکستانی شامل ہیں لہٰذا جن لوگوں کی نظر سے بھی یہ تحریر گزرے گی وہ یقیناً اس ادارے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ میری صاحب ثروت افراد سے درخواست ہوگی کہ آپ پاکستان میں رہ رہے ہیں یا پاکستان سے باہر مقیم ہیں تو ایک لمحے کیلئے سوچیے کہ آپ کے ملک میں یتیم اور نادار طلباء و طالبات کیلئے ایک ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے آپ اس ادارے کی مدد کرکے اپنے ملک کے اس ادارے کو بچا سکتے ہیں، آپ انسانی فلاح میں حصہ دار بن سکتے ہیں آپ اپنے ماتھے کو روشن کرکے نبی آخرالزماں ﷺکے روبرو سرخرو ہوسکتے ہیں، آپ نیک عمل میں شریک ہو کر اپنے ملک کے مستقبل کو خوبصورت بنانے میں بھرپور کردا ادا کر سکتے ہیں۔


وفاقی حکومت سے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا، اب جب پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں، عمران خان کی ہدایت پر لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھول دی گئی ہیں، احساس پروگرام کے تحت صحت کارڈ کی بحالی کا عمل جاری ہے، غریب خاندانوں کو چودہ ہزار روپے ماہواردیئے جانے کا عمل شروع ہو نے جا رہا ہے، مجھے معلوم ہے کہ کئی یونیورسٹیوں کے طالب علم احساس پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں، میری ثانیہ نشتر اور حکومت پنجاب سے بھی درخواست ہے کہ آپ مظفر گڑھ کے اس غریب پرور ادارے کو بھی احساس پروگرام میں شامل کرلیں تاکہ آپ کے فلاحی پروگرام میں غریبوں کا ایک ادارہ بھی شامل ہو جائے ورنہ بقول ذوالفقار احمد یوسف ؎


بھوک کے، پیاس کے خطرات سے ڈر جاتا ہے


مار کے اپنے ہی بچوں کو وہ مر جاتا ہے


ہر طرف اس کی ہی محنت کے مظاہر ہیں مگر


بھوک کے ہاتھ سے مزدور بکھر جاتا ہے


******


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس


ایپ رائےدیں00923004647998)