چیف جسٹس سے توقع نہیں کرتے وہ ایسا بیان دینگے جو نہیں ہوا، حامد خان

29 جولائی ، 2022

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سینئر ماہر قانون حامد خان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس سے توقع نہیں کرتے وہ ایسا بیان دینگے جو نہیں ہوا، ایسا لگتا ہے تبدیلیاں کر کے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا نیا قسم کا بیان دیا جارہا ہے جو افسوسناک ہے، وہ جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کررہے تھے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں عمران خان کے موقف میں تبدیلی دیکھی گئی ہے، ضمنی انتخابات کے نتائج اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے بعد عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے متعلق رویہ کافی حد تک نرم ہوگیا ہے، مگر ایک ادارہ ایسا ہے جو آج بھی عمران خان کے نشانے پر ہے، الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان آج بھی تنقید کررہے ہیں، دوسری طرف حکومتی اتحاد نے الیکشن کمیشن سے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ جاری کرنے کا مطالبہ کررہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹ کیا ہے کہ فارنگ فنڈنگ کیس بہترین مثال ہے کہ کیسے لاڈلے کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ سینئر ماہر قانون حامد خان نے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلا س سے متعلق دو متضاد دعوؤں کا آنا افسوسناک بات ہے، چیف جسٹس سے توقع نہیں کرتے کہ وہ بطور چیئرمین جوڈیشل کمیشن ایسی بات کریں گے جو وہاں نہیں ہوا ہے، ہماری اطلاعات کے مطابق 5-4کی اکثریت سے چیف جسٹس کے نامزد کردہ نام مسترد کردیئے گئے ہیں، ایسا لگتا ہے تبدیلیاں کر کے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا نیا قسم کا بیان دیا جارہا ہے جو افسوسناک ہے، ادارے کی ساکھ بچانا سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں جو حقیقت میں ہوا پریس ریلیز میں اس کی نمائندگی ہونی چاہئے، اجلاس موخر کرنا تھا تو ووٹنگ کرانے سے پہلے موخر کردیتے، ووٹنگ ہونے کے بعد اس کو موٴخر ہونا نہیں کہا جاسکتا، آپ نے اب جو نئے نام دینے ہیں وہ نئے سرے سے دینے ہو ں گے، جوڈیشل کمیشن کا اگلا اجلاس چھٹیوں کے بعد ہونا چاہئے۔حامد خان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو ساتھ لے کر چلنا چیف جسٹس آف پاکستان کی ذمہ داری ہے، یہاں نظر آرہا ہے چیف جسٹس عدلیہ کو تقسیم کررہے ہیں، اس سے عدلیہ کے وقار اور آزادی میں کمی آئے گی، چیف جسٹس سے اپیل ہے عدلیہ میں مزید اختلافات نہ پیدا ہونے دیں، چیف جسٹس کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کریں حق اور اصول پر چلیں، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو پانچ سال سے بٹھایا ہوا ہے، کوئی جواز نہیں ہے انہیں سپریم کورٹ میں کیوں نہیں لایا جارہا ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو چار سال سے باہر بٹھایا ہوا ہے، امید ہے چیف جسٹس آئندہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے۔ حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کی ضرورت ہے، بنچ بنانے کا اختیار اکیلے چیف جسٹس کا نہیں ہونا چاہئے، بنچ بنانے کیلئے چیف جسٹس کے ساتھ چار ججوں پر مشتمل کمیٹی ہونی چاہئے، آئینی و سیاسی کیسوں کو سینئر ترین پانچ ججوں کے بنچ کو سننا چاہئے، سپریم کورٹ بار کا پچیس سال سے مطالبہ ہے کہ بنچ pick & choose کی بنیاد پر نہ بنائے جائیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال غالباً ہم خیال ججوں کو ساتھ بٹھا کر فیصلے کرنا چاہتے ہیں، یہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے لئے مناسب نہیں ہے۔