چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج آمنے سامنے

29 جولائی ، 2022

اسلام آباد( رپورٹ:،رانا مسعود حسین)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ،مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جوڈیشل کمیشن کے دیگر ممبران کوگزشتہ روز ایک نیا خط لکھ کر ان سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے ججوں کی خالی نشستوں اور ماہ اگست میں خالی ہونے والی ایک نشست پر نئے ججوں کی تقرریوں کے حوالے سے ہونے والی کارروائی اور فیصلوں کی تفصیلات فوری طور پر میڈیا کوجاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے ،فاضل جج نے جمعرات کے روز چیف جسٹس اور ممبران کے نام لکھے گئے نئے خط(جس کی کاپی روزنامہ جنگ کے پاس دستیاب ہے) میں کہاہے کہ جمعرات کے روز جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپر یم کورٹ کی خالی نشستوں پر نئے ججوںکی تقرریوں کیلئے چیف جسٹس کی جانب سے پیش کردہ ناموں پر غور کیا گیا،تفصیلی بحث کے بعد کمیشن کے اراکین کی اکثریت یعنی مجھ(جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ) سمیت جسٹس سردار طارق مسعود، وفاقی وزیر قانون و انصاف ،اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی اور پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین ایڈوکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے 3 جونیئر ججو ںاور لاہور ہائیکورٹ کے ایک جونیئر جج کا نام مسترد کردیا ۔ جہاں تک پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس(جسٹس قیصر رشید) کوسپریم کورٹ میں ترقی دینے کا تعلق ہے تو یہ فیصلہ کیا گیاہے کہ چونکہ وہ ملک بھر کی پانچوں ہائی کورٹوںکے چیف جسٹس صاحبان میں سے نہ تو سینئر ترین چیف جسٹس ہیں نہ ہی سینئر ترین جج ہیں ،تاہم ڈیٹا کی فراہمی کے ساتھ جب ان فاضل چیف جسٹسز کے نام سپریم کورٹ میں ترقی کے لئے پیش کئے جائیں تو ان کے نام پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ خط میں مزید لکھا ہے کہ اجلاس میں طے ہوا ہے کہ آئین کسی بھی اسامی پر پیشگی تقرری کی اجازت نہیں دیتا ہے، چیف جسٹس بطور چیئرمین، جوڈیشل کمیشن ہم پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتے ہیں، کمیشن کے چیئرمین/چیف جسٹس عمر عطا ء بندیال نے جو فیصلے کیے تھے ان کا حکم نہیں دیااور جسٹس اعجاز الاحسن کے ہمراہ اچانک ہی اجلاس کی کارروائی چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔فاضل جج نے خط میں مزید لکھا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے سیکرٹری چھٹیوں پر ہیں، چونکہ یہ اجلاس ان کیمرہ (بند کمرہ) منعقد ہوا ہے ،اور قوم کی نظریں جوڈیشل کمیشن پر ہیں،اس لیے قائم مقام سیکرٹری/رجسٹراراس اجلاس کی مکمل کارروائی / فیصلہ فوری طور پر میڈیا کو جاری کردیں تاکہ غیر ضروری قیاس آرائیوں اور میڈیا پر غلط رپورٹنگ کو روکا جا سکے گا۔توقع کی جاتی ہے کہ تفصیلی منٹس ان تمام واقعات کی درست عکاسی کریں گے۔